ایک زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کو شاہی پہلوان کا خطاب ملا ہوا تھا ۔
بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھاکہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں اجنبی شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔
اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نےاسے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔
وزیر نے اجنبی سے استفسار کیا ۔
تم کیا چاہتے ہو۔؟؟
اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ کو یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔
یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہےتو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔
بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد کشتی کی تاریخ اور مقام کا اعلان کر دیا گیا ۔
پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔
ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم موجود تھا۔ بادشاہ وقت اراکین سلطنت کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص کی منتظر تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا تاہم لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔
ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کرحیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔
کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید کے کان میں کچھ سرگوشی کی ۔ جنید کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ۔بہر حال کشتی کا آغاز ہو گیا۔
اجنبی شخص اور جنید پہلوان نے آپس میں پنجہ آزمائی شروع کر دی ۔کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ بوڑھے میں لگتا تھا کہ جوانی لوٹ آئی ہے ۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ داؤ پیچ کے مظاہرے جاری تھے ۔ ہجوم کا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھتا۔
دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے ۔۔
یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور بوڑھا شخص سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور لوگوں نے ضعیف فاتح کو کندھوں پر اٹھا لیا۔
میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ ضعیف فاتح پہلوان بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنے مسکن کی طرف چل دیا۔اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا ۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنے سن رہا تھا۔
ضعیف پہلوان کو شاہی دربار سے مکمل انعام وکرام ادا کر دیا گیا ۔ تاہم بادشاہ وقت کو جنید کی بوڑھے سے شکست ہضم نہیں ھو رہی تھی ۔ شاہ وقت نے جنید پہلوان کو بلا بھیجا اور شکست کے بارے استفسار کیا ۔ جنید تم نے ہمیں شرمندہ کر دیا ۔ اپنے شاہی وقار اور عظمت کو پاش پاش کر دیا ہے ۔ کیا تم بک گئے تھے ۔ جنید بغدادی خاموش رہے ۔ بادشاہ نے اونچی آواز میں سچ بولنے کاحکم دیا۔
جنید بغدادی نے شاہ سے دست بدست عرض کی جناب والا۔ میں جرمانہ ادا کرنے کو تیار ہوں مگر کچھ نہ پوچھیں تو بہتر ہے ۔ تاہم بادشاہ نے سختی سے حکم کیا ۔ سب سچ بیان کیا جائے ۔
جنید پہلوان نے عرض کی ۔ ہاں حضور میں جان بوجھ کر ہارا ہوں ۔ یہ سچ ھے کہ اپنے شاہی وقار کو پاش پاش کیا ہے ۔ مقابلے میں ہار کر جو بےعزتی کا سودا کیا ہے ۔ اس کے سامنے بڑے بڑے رتبے ھیچ ھیں ۔ آج سے پہلے اتنا قابل فخر سودا کبھی نہں کیا یہ تو بہت ہی سستا سودا کیا ہے کہ جس کا منافع شمار سے باہر ہے ۔ مجھے اپنی ہار پر کوئی شرمندگی نہیں ھے ۔
بادشاہ نے تفصیل سے تمام روئیداد سنانے کا حکم دیا ۔ جنید گویا ہوئے کہ مقابلے سے قبل بوڑھے پہلوان نے میرے کان میں سرگوشی کے انداز میں کچھ کہا تھا جس نے میرے اندر اک زلزلہ برپا کر دیا تھا ۔ اس نے میرے کان میں کہا تھا ۔
اے جنید !میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ سادات گھرانے سے میرا تعلق ہےمیرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔
رسول زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے
کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔
تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔اجنبی شخص کے یہ چند جملے میرے جگر میں اتر گئے۔ میرا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔
سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ .
اگر بنی ہاشم کے گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔
جنید اتنا کہ کر خاموش ہو گئے ۔ بادشاہ کو بھی چپ لگ گئی ہاتھ کے اشارے سے جنید کو رخصت ہو جانے کا کہہ دیا ۔
رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹ گئے ۔ اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گاجنید سوچتا رہا کیا واقعی ایسا ہوگا ؟ کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا ؟
کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟نہیں نہیں میں گنہگار اس قابل کہاں ؟؟
لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا ۔
نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے، ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی،جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا۔
جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا کریم ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں،
آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔۔
اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئےآئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں سما چکی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔
بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا،۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے ۔
منقول