ناسا اور چاولوں کی دیگیں!!
ہم میں سے کم و بیش ہر انسان میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی مدد کا جذبہ ہوتا ہے۔ اسکا طریقہ کار یا اظہار کا موقع البتہ مختلف ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم پاکستان میں چونکہ سائنسی ذہن نہیں رکھتے اور محض ایجادات ِ سائنس کے صارف ہیں لہذا ہمیں یہ لگتا ہے کہ سائنس، خلا اور دیگر سیاروں پر تحقیق کرنا ایک بے سود عمل ہے۔ یہ محض پیسے کا زیاں ہے۔ خلاؤں کو تسخیر کر کے یا کائنات کو کھوج کر ہم کیا اُکھاڑ لیں گے۔ ہم یہ ادراک نہیں کر پاتے کہ زمینی مسائل کا حل آسمانوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم چاند پر نہ جاتے تو شاید آج ہمارے کمپوٹرز اور دیگر الیکٹران کا سامان جس میں موبائل فونز وغیرہ شامل ہیں اتنے بہتر نہ ہوتے۔ مثلاً یہ کہ آج جو ہم رابطوں کی دنیا میں ہیں اور نت نئے آن لائن کاروبار اور آن لائن سہولیات استعمال کر رہے ہیں وہ در پردرہ اُنہی ٹیکنالوجیز کی مرہونِ منت ہے جو خلا میں استعمال کے لیے بنائی گئیں۔ ہم نے خلاؤں کے لیے سٹلائٹ بنائے، جن سے آج ہم گوگل میپس پر رستے نہیں بھولتے۔ ہم۔آج بھی انہی سٹلائٹس کے ذریعے موسم کا حال، فصلوں، جنگلات، معدنیات وغیرہ کے سروے کرتے ہیں۔ بہت سی مفید معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ قدرتی آفات جیسے کہ طوفانوں کی بروقت پیش گوئی سے کئی جانیں بچاتے ہیں۔
یہ فہرست طویل ہے، کہنے کا مقصد یہ کہ ماضی میں تسخیرِ کائنات پر لگنے والا پیسے کے ثمرات انسانیت کھا رہی ہے۔ انسانوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آتیں یا ہم اس پر سوچتے نہیں لہذا ہم اپنی پوری نیک نیتی میں یہی سمجھتے ہیں کہ ناسا اگر اس سب پر پیسہ لگانے کی بجائے چاول کی دیگیں بانٹنا شروع کر دے تو انسانی مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک بھوک ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم اس نہج پر ہی نہیں پہنچ سکے کہ بھوک سے آگے کا سوچ سکیں۔ یہ کس قدر بدقسمتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ پچھلی تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جنکا ریوینیو پاکستان کے سالانہ بجٹ سے دوگنا یا کئی گنا ہے جیسے کہ ایپل، گوگل، مائیکروسوفٹ وغیرہ۔۔ یہ کمپنیاں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں۔ یہ کمپنیاں دراصل کیا بیچتی ہیں؟ گندم، گنا یا کپاس؟ نہیں۔۔۔ یہ ٹیکنالوجی بیچتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کہاں سے آتی ہے؟ تحقیق سے، سائنس سے۔ یہ ہر سال تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ جس سے نت نئی ٹیکنالوجییز متعارف ہوتی ہیں جن سے یہ پیسہ بناتی ہیں۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ پیسہ کیسے بنتا ہے؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں؟ نہیں کیونکہ ہم نہ ہی سائنس پڑھتے ہیں، نہ ہی سائنس سمجھتے ہیں۔ ہمارے ذہن جمود کا شکار ہیں۔ لہذا اندھا کیا مانگتا ہے دو آنکھیں کے مصادق ہم بھی محض رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔کہتے ہیں کسی غریب سے کسی نے پوچھا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ وہ بولا چار روٹیاں۔
یہی حال ہمارا ہے، ہماری غربت کی وجہ جہالت ہے اور جہالت کیوجہ غربت۔ ہم غربت کو جہالت مٹا کر ختم کر سکتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال سیکھیں۔ نت نئے کورسز کیجئے، دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ جانئے اور سائنس کو تعصب کے بغیر سمجھئے۔ یاد رکھیں اگر آپ اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینا چاہتے ہیں تو آپکو خود کو اور اپنے بچوں کو سائنس سکھانا ہو گی۔ ورنہ آپکے بچے بھی آپکی طرح بڑے ہو کہ محض یہ خواہش کریں گے کہ کاش ناسا خلاؤں میں تحقیق کی بجائے چاولوں کی دیگیں بانٹتا۔
ڈاکٹر حفیظ الحسن