ویران گھر۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں جب چھٹیوں میں گاؤں جایا کرتے تھے تو ایک مشغلہ دادا ابو کے ساتھ گاؤں کی سیر کےلئے جانا تھا۔اس دوران کئ بزرگوں کو دیکھا جو اپنے گھروں کے باہر لکڑی کے دروازوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے تھے جیسے کسی کی راہ تکتے ہوں۔بچپن کے خوشی بھرے ماحول میں بھی وہ منظر ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کوئ اداس پینٹنگ۔۔۔۔۔
زمانوں بعد ملازمت کے سلسلے میں جہلم اور دینہ شہر دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔دینہ کی تنگ تنگ گلیوں میں انسان حیرت انگیز تجربے سے گزرتا ہے جب اچانک کوئ تنگ موڑ مڑتے ہی خوابوں جیسا کوئ محل آجاتا ہے۔حیرت میں گرفتار انسان اطلاعی گھنٹی بجائے تو اندر سےکوئ خوابوں کا شہزادہ یا شہزادی برآمد نہیں ہوتے بلکہ بوڑھے ماں باپ یا خالی گھر میں موجود چوکیدار سامنے آتا ہے۔بڑے بڑے شاندار گھر ایک طرف تو انسان کے اپنے علاقے میں آسودگی سے بسنے کی تمنا کو ظاہر کرتے ہیں اوران گھروں کی ویرانی ہجرت کے درد کو بیان کرتی ہے۔یہ وہ گھر ہیں جو باہر کی آمدنی سے بنے ہیں اور واپسی کے خواب کو زندہ رکھتے ہیں۔
آجکل ہم ایک اور صورتحال سے دو چار ہیں۔مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس گھروں میں لائق اور قابل بیٹے ،چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے ملکوں میں سیٹل ہورہے ہیں جبکہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم سے بنائے ہوئے خوبصورت گھروں میں معاشی طور پر آسودہ والدین پرندوں اور پالتو جانوروں سے دل بہلاتے ہیں۔
وہ جو تعلیم حاصل کرنے گئے تھے۔انکی واپسی اب آسان نہیں رہی۔فون ،ویڈیو کال پر جدائی کے افسانے بیان نہیں ہوسکتے۔لیکن پھر بھی رابطے کی صورت رہتی ہے۔
معاشرے میں ناانصافی کا چلن عام ہوجائے تو نئ نسل سفر کے اسباب تیار کرتی ہے۔اڑنے کو پر لگ جائیں تو گھونسلے خالی ہونے لگتے ہیں۔جھولا جھلانے والے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے رہتے ہیں ۔لیکن مکینوں سے خالی گھر بھی ماں باپ کی اداسی اور اولاد کی مجبوری کی کہانی سنانے سے باز نہیں رہتے۔
عمارہ مرتضی