16 ستمبر 1936
یوم پیدائش ملعون جہیمان عتیبی
جہیمان عتیبی جس کا مکمل نام جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي ستمبر 1936ء سعودی عرب کے صوبہ القصيم میں پیدا ہوا تھا۔
جہیمان ایک مذہبی کارکن اور عسکریت پسند تھا اس کی قیادت میں 400 سے 500 مردوں کے ایک منظم گروپ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
حج ختم ہوئے ابھی صرف 20 دن ہی گزرے تھے، نئے اسلامی سال بلکہ نئی اسلامی صدی یعنی 1400 ہجری کا پہلا دن تھا۔ گویا یہ یکم محرم الحرام سن 1400 ہجری بمطابق 20 نومبر 1979، منگل کی صبح تھی جب اسلامی تاریخ کا ایک ایسا تلخ اور دلوں کو رلا دینے والا واقعہ، مسجدالحرام کی محترم اور مبارک دیواروں کے بیچ، جانوں سے زیادہ عزیز کعبہ مشرفہ کے اطراف میں وقوع پزیر ہوا جس کے زخم آج تک عشاق حرم کے دلوں میں تازہ ہیں۔
نئی صدی کی پہلی صبح جب امام حرم کعبہ شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا، ان میں سے کچھ لاؤڈ سپیکر پر قابض ہو گئے۔ کچھ مسجد الحرام کے میناروں پر چڑھ گئے اور کچھ مسلح افراد نے مسجد کے دروازوں کا کنٹرول سنبھال لیا، کیونکہ حج ختم ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے، اس لئے دوسرے ملکوں کے حاجیوں کی ابھی کثیر تعداد مکّہ مکرمہ میں ہی مقیم تھی، جس کی وجہ سے جب یہ دلسوز حملہ امت مسلمہ کے دلوں پر کیا گیا تو اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔
ان حملہ آوروں خوارج کا سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” تھا اور اس کا تعلق سعودی عرب کے علاقے ”نجد” کے ایک طاقتور گھرانے سے تھا۔ اس کا دست راست 27 سالہ "محمد بن عبد اللہ قحطانی" تھا۔ جس نے مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی چار سالہ تعلیم حاصل کی تھی، کہا جاتا ہے کہ حملہ آور خوارج کے سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” نے اسے اپنا بہنوئی بنا رکھا تھا۔
ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر تابوتوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار حرم پاک کے تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔ اسلحے کے ساتھ ساتھ خشک کھجوروں اور دیگر اشیا خورد و نوش کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ تہہ خانوں میں چھپا دیا گیا تھا۔ یہ سب کام کئی دنوں میں مکمل ہوا، مگر سازش گہری تھی، اس لئے کسی کو اس کا شک نہ ہوا اور کسی کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ اس متبرک مقام پر کوئی گروہ اتنی ناپاک سازش کا تصور بھی کر سکتا ہے۔
دلوں کو چیر دینے والی اس صبح جب امام حرم کعبہ شیخ عبد اللہ بن سبیل کو ان حملہ آوروں نے اپنے قابو میں کیا تو فورا ہی انکے ناپاک عزائم کے مطابق کاروائی پورے حرم محترم میں شروع ہو گئی۔ اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دیئے گئے۔ حرم میں موجود تمام نمازی یرغمال بنا لئے گئے۔ جو اپنی تھوڑی بہت کوشش سے حرم سے نکل گئے، بس وہی نکل سکے۔ باقی سب معصوم حاجی اور نمازی جن میں خواتین، بوڑھے اور بچے بھی تھے محصور ہو کر رہ گئے۔ ایک حملہ آور نے عربی میں حرم پاک کے اسی مائیک سے جس پر چند لمحوں پہلے نماز فجر کی تلاوت ہو رہی تھی، اعلانات کرنا شروع کر دیئے کہ ”مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔”
نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی نے بھی مائیک پر آ کر اعلان کیا کہ
”میں نئی صدی کا مہدی ہوں، میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کریں گے۔ ”
اس کے بعد اس گمراہ ٹولے نے مسجدالحرام کے مقام ابراہیم جیسے مقدس گوشے کے پاس، کعبہ مشرفہ کے عین سامنے جا کر گولیوں، سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت کروانی شروع کر دی ۔
محاصرے کے فوراً بعد وزارت داخلہ کے تقریباً ایک سو (100) اہلکاروں نے دوبارہ حرم مکی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن مرتدین حملہ آوروں نے ان فوجیوں کی کوشش ناکام بنا دی۔ اس کوشش میں بہت سا جانی نقصان بھی ہوا۔ اس کے بعد سعودی فوج اور سعودی نیشنل گارڈ نے بھی حرم پاک کو ناپاک لوگوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی، جو زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ شام ہوتے ہوتے پورے مکّہ مکرمہ کو رہاشیوں سے خالی کرا لیا گیا۔
سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32 علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فتوی دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔
بعد ازیں سعودی آرمی اور فرنچ آرمی کا خوارج سے مقابلہ ہوا جن کے پاس سنائپرز اور شارپ شوٹرز تھے اور انہوں نے مسجدالحرام میں جگہ جگہ پوزیشنز سنبھال لیں۔ دو دن تک مقابلہ ہوا لیکن سعودی فوجی ہلاکتوں کے باوجود سعودی اور فرنچ آرمی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ مسجدالحرام دو دنوں سے اذانوں اور نمازوں کی تکبیرات کی گونج سے محروم تھی۔ گویا نہ اذانیں دی جارہی تھیں نہ نمازوں کا باقاعدہ اہتمام ہو پا رہا تھا، نہ طواف ممکن تھا۔
بالآخر الحمد للہ ایک بار پھر پاکستان کی پاک فوج کو اسلام کی فوج ثابت ہونے کے لئے کارروائی کرنے کا موقع دیا گیا، جس نے نہایت کم وقت میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی. پاکستانی کمانڈوز نے دہشت گردوں کے سنائپرز سے نمٹنے کے لئے ایک عجیب ترکیب استعمال کی ۔ پورے مسجدالحرام میں پانی چھوڑا گیا اور پوری مسجد کی گیلی زمین میں کرنٹ دوڑانے کی دھمکی دی گئی جس کی وجہ سے خوارج کے شارپ شوٹرز اور سنائپرز کچھ دیر کے لئے غیر مؤثر ہو گئے۔ پاک فوج نے غیر معمولی سرعت سے تمام خوارج پر قابو پا لیا۔ بغیر کسی جانی نقصان کے سب حملہ آوروں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ تمام یرغمالیوں کو رہائی دلائی گئی۔ اس طرح اللہ تعالی نے یہ عظیم سعادت پاکستان کو عطا کی۔ اللہ ہمارے ان روحانی مراکز مکہ و مدینہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور انہیں حاسدوں کے شر سے محفوظ و مامون رکھے. (آمین)
خوارج کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ گویا سترہ دن حرم پاک میں اذانیں نمازیں اور طواف ممکن نہ ہو سکا۔
اس لڑائی میں 75 باغی مارے گئے، جس میں نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی” بھی شامل تھا،
خوارج کے علاوہ نیشنل گارڈز کے 60 فوجی، چار پاکستانیوں سمیت 26 حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ خوارج کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا، جس میں سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” بھی شامل تھا۔
سزائے موت پانے والے مرتدین میں سے 41 سعودی عرب، 10 مصر، 6 جنوبی یمن، اور 3 کویت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ عراق، سوڈان اور شمالی یمن کا بھی ایک ایک مرتد شامل تھا۔ کیس کے بعد ان تمام ملزموں کے سعودی قوانین کے تحت سر قلم کر دیئے گئے۔
09 جنوری 1980 کو جہیمان عتیبی کو سزائے موت دیتے ہوئے سر قلم کر دیا گیا۔
الوکیل