@ ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا ڈالا
ہم دعا لکھتے رھے وہ دغا پڑھتے رھے
ایک خوبصورت شگفتہ تحریر
دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، جون کا مہینہ ہے- سمن آباد کی گلیوں میں ایک ڈاکیا پسینے میں شرابور بوکھلایا سا پھر رہا ہے- محلے کے لوگ بڑی حسرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں-
اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے وہ کچھ دیر اِدھراُدھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل
کھڑی کر کے دکاندار کی طرف بڑھتا ہے- "قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہےاس نے آھستہ سے پوچھا
دکاندار کے پیروں تلے زمین نکل گئی
اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں
"قق .... قاتل سپاہی- مم .... مجھے کیا پتا
اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا
ڈاکیا پھر پریشان ہو گیا
اس نے بڑی کوشش کی کہ کسیطریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا، چپکے سے کھسک جاتا- ڈاکیا نیا تھا، جان نہ پہچان ہے اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری- آخر وہ کرے تو کیا کرے،
کہاں سے ڈھونڈے قاتل سپاہی کواس نے پھر سے نام پڑھانام
اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا
تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا
بڑے واضح الفاظ میں "قاتل سپاہی
غالب سٹریٹ، سمن آباد" لکھا تھا
دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا-
پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا
اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائےگا اسکاحلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوسہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور ایک گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی
اچانک اسے زوردار جھٹکا لگا
جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی نیم پلیٹ پر انگلش میں "قاتل سپاہی" لکھا ہوا تھاخوشی کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی- اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور نوجوان باہر نکلا
ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی-
کیا آپ ہی کا یہ نام ہے؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا-
"نہیں .....!
یہ میرے دادا ہیں
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا
کیا نام ہے ان کا؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا-
"قتیل شفائی-"(Qatil Shiphai)