بہت کم سندھی ہوں گے جن کے نام میں ذات شامل نہ ہو. حتیٰ کہ پیشوں کے حوالے سے کمتر سمجھی جانے والی وہ ذاتیں جنہیں پنجاب میں لوگ چھپاتے ہیں، وہ بھی ضرور لکھی جاتی ہیں کیونکہ کوئی ذات نہ ہونا "ولدیت نامعلوم" جیسی بات سمجھا جاتا ہے.
اسی رِیت کی وجہ سے سندھ میں آباد پنجابی بھی نام کے ساتھ ذات لکھتے ہیں. ذات برادری کی بنیاد پر ان کی تنظیمیں بھی ہیں اور ان کے سربراہ بھی. برادری سسٹم عام طور پر پسندیدہ نہیں لیکن فائدوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا.
کوووڈ/کورونا کی وبا کے دنوں میں ایک نام بہت سنا گیا. جسے کوئی دوا نہ ملتی یا اتنی مہنگی کہ وہ خرید نہ سکتا تو کہا جاتا کہ بریگیڈیئر بشیر ارائیں سے رابطہ کریں. وہ دوا گھر بھجوا دیں گے. ہزاروں لوگوں کو انہوں نے دوائیں پہنچائیں. دراصل بریگیڈیئر بشیر نے آرمی میڈیکل کور سے ریٹائر ہونے کے بعد کوئی اور سرکاری افسری لینے کی بجائے دواؤں کا کاروبار شروع کردیا تھا اور انہیں پتہ تھا کہ بے ایمان لوگ 6 روپے میں پڑنے والا ٹیکہ ڈیڑھ دو ہزار میں بیچ رہے ہیں. اس لیےغریبوں کی مدد کا یہ بہت اچھا موقع ہے. پھر انہوں نے انتہائی غریب مریضوں کو دو ہفتے کا راشن بھی پہنچانا شروع کردیا. دواؤں کے بزنس کے سیٹھ ان کے دشمن ہوگئے. اسی دوران کور کمانڈر نے انہیں چائے پر بلالیا. ان کے کام کی تعریف کی لیکن یہ بھی پوچھ لیا کہ اتنا سرمایہ کہاں سے آرہا ہے. انہوں نے کہا ایسے کام کیلئے سرمائے سے زیادہ اچھی نیت اور توکل کی ضرورت ہوتی ہے. یہ پڑھ کر مجھے تو حیرت ہوئی کہ بریگیڈیئر بشیر فاؤنڈیشن کا کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں جس میں ڈونیشنز آتی ہوں. لیکن لوگ ان سے لڑتے تھے کہ نیکی کےکام میں ہمیں کیوں نہیں شریک کرتے. ایسے لوگوں نے دواؤں اور انجکشنوں کے ڈھیر لگوادیئے. ڈاکٹر بشیر نے تھر میں سولر پاور والے پانچ کنویں اپنے پیسوں سے بنوائے تو 70 کنووں کیلئے پیسے ان کے دوستوں رشتے داروں اور دوسرے لوگوں نے فراہم کردئیے. انہیں یاد ہے کہ ان کے والد کی ریڑھ کی ہڈی میں خرابی تھی تو انہیں کراچی لے جانے کیلئے ایمبولینس کے پیسے ان کے پاس نہیں تھے، عام بس میں لٹا کر لے گئے تھے. اس لیے نواب شاہ کے مریضوں کیلئے انہوں نے ایمبولینس فراہم کردی ہے.
ڈاکٹر بشیر ضلع نواب شاہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک غریب ارائیں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. چار چار میل پیدل چل کر سکول جاتے رہے. غربت سے نجات کیلئے سخت محنت کی، تعلیمی اخراجات کیلئے کراچی سے سامان لاکر ایک ایک دکان جاکر بیچا، ڈاکٹر بنے، فوج میں گئے، بریگیڈیئر کے رینک تک ترقی پائی. ریٹائر ہوئے تو کاروبار کے ساتھ خدمت خلق کیلئے بریگیڈیئر بشیر فاؤنڈیشن قائم کیا. اتنی محبت اور عزت ملی کہ سندھ کی ارائیں برادری نے انہیں اپنا سردار چن لیا. اس برادری اور سرداری سسٹم کے مثبت پہلو کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں اسی برادری کی ایک خاتون کراچی میں ان کے دفتر آئی اور بتایا کہ اس کی طلاق ہوگئی ہے. تین سال سے عدالت کے چکر لگارہی ہے کہ سابق شوہر جہیز کا سامان واپس کرے. شوہر نے تنگ کرنے کیلئے بچی کی کسٹڈی کا کیس کر رکھا ہے. بچی دل کی مریضہ ہے اس کیلئے ہسپتالوں کے چکر الگ لگا لگا کر خجل خوار ہورہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی طرح اس کے شوہر کو بلالیا. پہلے تو وہ اکڑا کہ بریگیڈیئر ہیں تو اپنے گھر میں ہوں گے. ہمارا معاملہ عدالت میں ہے وہ فیصلہ کرے گی. بریگیڈیئر نہیں، برادری کا سردار ہونے کی حیثیت سے میں تم دونوں کا بزرگ ہوں. میرے لیے دونوں ایک جیسے ہو. عدالتی چکروں میں پڑے ہوئے لوگ تنگ تو آ ہی چکے ہوتے ہیں بس انا کا مسئلہ رکاوٹ بنا ہوتا ہے. دونوں نے مان لیا کہ ڈاکٹر صاحب کا فیصلہ انہیں قبول ہوگا. ڈاکٹر صاحب نے خود ہی صلح نامہ ٹائپ کیا، گواہ اور ضامن بنے. شوہر نے سامان واپس کیا اور بیوی نے اسے بچی کو اپنے گھر لے جانے اور دادا دادی سے ملانے کی اجازت دے دی. شوہر نے بچی کا خرچہ دینا بھی مان لیا.
اگلے دن اس خاتون نے ڈاکٹر صاحب کو فون کرکے کہا رات مجھے برسوں بعد سکون کی نیند آئی ۔ کاش ہمارے کوٸی بزرگ آپکی طرح بڑوں والا کردار ادا کرتے تو شاید میری طلاق بھی نہ ہوتی ۔ لڑکا بھی شکریہ ادا کرنےآفس آیا ۔ بتایا کہ صرف ملیرکورٹ میں 350 باپوں کا ایک گروپ بنا ہوا ہے جو اسی طرح کے مقدمے کیے بیٹھے ہیں. میرا صلح نامہ پڑھ کر ان میں سے کٸی لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ بھی اسی طرح کورٹ سے باہر باہر کروا دیں۔
ڈاکٹر بشیر ارائیں نے دواؤں کی ڈسٹری بیوشن کے بڑے کاروبار کے ساتھ اب ایک یونیورسٹی قائم کرنے کی منظوری لے لی ہے. یہ بھی آج کل ایک بڑا کاروبار ہے. دیکھنا ہوگا کہ وہ اسے کاروبار کے طور پر چلاتے ہیں یا خدمت خلق کیلئے.
انہوں نے اپنا زندگی نامہ یا آپ بیتی "خاک سا خاکی" کے عنوان سے لکھی ہے. پڑھ کر لگتا تو یہ ہے کہ وہ اپنی خاک سے ہمیشہ جڑے رہے ہیں. کتاب میں ان کے گاؤں ڈھولے والی گوٹھ سے لیاقت میڈیکل کالج، قائداعظم یونیورسٹی، سب سے زیادہ درجہ حرارت والے مقام چھور سے چترال، خلیجی جنگ، صومالیہ، بوسنیا میں اقوام متحدہ مشن میں کام کے دوران پیش آنے والے سیکڑوں دلچسپ واقعات شامل ہیں.