آجکل امبانی خاندان کا بہت چرچا ہے
لیکن ساتھ یہ بھی نوحہ گایا جا رہا ہے کہ
پاکستان کے پاس امبانی ، برلا ،ٹاٹا جیسی کمپنیاں کیوں نہیں ہیں۔
لیکن کیا کیا جائے کہ نئی نسل کو جیسے پہلے 22 خاندان کا چورن بیچا گیا تھا آج والوں کو چور چور کا چورن بیچا گیا ہے۔
1970 تک پاکستان میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا برلا سے بڑے جینیئس صنعتکار، بینکار، بزنس جینئس تھے ۔جنہوں نے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔
ملک کوریا جاپان سے بہت آگے تھا،
مڈل ایسٹ کے ممالک کسی گنتی میں نہیں تھے۔ ان صنعتکاروں بینکاروں کو بائیس خاندان کا نام دے کر ٹارگٹ کیا گیا۔
ان میں سہگل گروپ نے کپڑے کی صنعت کو عروج دیا،
داوود گروپ ہیوی وہیکل اور زرعی مشنری کے بادشاہ تھے ۔
داوود ہرکولیس کے پاس ٹریکٹر کی پروڈکٹ تھی،
ہارون خاندان چھوٹی مصنوعات ،
اصفہانی خاندان اور سلہٹ کے چائے کے باغات کے مالک تھے۔
ملک کی پہلی ائیرلائن قائم کی جو آج کی سب ائیر لائینوں سے بہتر تھی،
حبیب گروپ بینکنگ کے کنگ تھے ۔
ساٹھ کی دہائی ان کا حبیب پلازہ ایشیاء کی بلند ترین عمارت تھی۔
ایشیاء میں پہلا IBM بینکنگ سسٹم اس بلڈنگ کی نویں منزل پر نصب ہوا ۔
۔ فینسی کپڑے کی صنعت نشاط گروپ کے پاس اور مختلف مصنوعات کے بانی تھے،
لاہور میں بیکو انڈسٹری یعنی بٹالہ انجینئرنگ سائیکل موٹرسائیکل اسمبل کرتے تھے۔
ان کی بیکو ، ہرکولیس، سہراب،رستم سائیکل پورے ملک میں چلتی،
میاں شریف کی اتفاق ٹیوب ویل اور تھریشر کے بانی تھے۔
سن چھیاسٹھ بیکو کے میاں لطیف اور اتفاق کے میاں شریف نے مغل پورہ ورکشاپ میں ٹینک سازی کی اجازت لی۔
لارنس پور وولن ملز کی سوٹنگ دنیا میں نمبر ون تھی۔جو کہ پوری صنعتی ریاست تھی ۔
جنکے مالک مشینری بنگلہ دیش لے گئے۔
بھٹو صاحب نے ان 22 خاندانوں کے خلاف تحریک چلائی کہ ملک کی ساری دولت ان کے پاس ہے ان کے پیٹ سے نکالوں گا۔
۔ہم عوام ان کے خون کے پیاسے ہوا کرتے تھے۔ ہم نے ان محسن خاندانوں کے خلاف خونی تحریک چلائی۔
بھٹو صاحب خود بھی فیوڈل تھے اور فیوڈلز یعنی بڑے زمین داروں نے پاور میں آکر سب صنعت کاروں کی املاک بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لے لیں۔ جسکو نیشنلائیزیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
لاہور کی بیکو اب پیکو بن کر تباہ ہوئی۔ سب جینئس خاندان تباہ و برباد ہوئے۔
بیکو کے میاں لطیف جرمنی چلے گئے، کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوئے۔
اتفاق کے میاں شریف ملک چھوڑ کر گلف سٹیل ملز کے نام سے مڈل ایسٹ میں فیکٹری لگا کر بیٹھ گئے۔
اصفہانی کنگال ہو گئے ۔
ان کے سلہٹ کے چائے کے باغات بنگلہ دیش لے گیا۔
ائیرلائن پی آئی اے بن کر تباہ ہوئی،
حبیب گروپ سے حبیب بینک چھین لیا گیا،
سہگل گروپ نے کوہ نور جیسی بزنس ایمپائرز پلاٹ بنا کر نیلام کر دی۔
کوہ نور پوٹھوہار کی ماں کہلاتی تھی،تباہ ہوئی۔
مشرقی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے دور کے میمن سنگھ اور نرائن گنج بہت بڑے انڈسٹریل زون بنگلہ دیش کے کام آئے،
کراچی سائیٹ انڈسٹریل ایسٹیٹ جہاں گندھارا والے ہینو ٹرک بناتے ،شاہنواز لمیٹڈ ، شیورلیٹ اور مرسیڈیز اسمبلی کرتے تھے، سب کچھ قومیا(نیشنلائیز) کر کے تباہ کر دیا گیا۔
ان خاندانوں میں سے اصفہانی کی بیٹی حسین حقانی کی اہلیہ امریکہ چلی گئ ۔
بعد میں جنرل ضیاء نےصنعت کاروں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔
ہاروں خاندان کے محمود اے ہارون کو گورنر سندھ بنایا۔
شریف خاندان کو جنرل ضیاء باہر سے بلا کر لائے۔اور پھر اسی شریف خاندان کے نواز شریف نے ملک کو ترقی کی اس راہ پر ڈالا کہ آج کا ملک جو کچھ نظر آتا ہے اسی نواز شریف کے وژن اور کاموں کی بدولت ہے،
ورنہ بھٹو کی بیٹی تو موٹروے بھی ختم کرنا چاہتی تھی۔
اور اسی ارب پتی شریف خاندان کو چور چور سننے کے لئے کبھی اندر ،کبھی باہر ،کبھی جیل کبھی جلاوطنی، کبھی دو فلیٹ کہاں سے آئے۔۔؟ کبھی پاکستان کی دولت واپس لاو۔
اصل میں تو غلامی اور غربت تو بھٹو کے فیصلے کی دی ہوئی ہے۔( جس کے پیچھے وہی کمپنی کے نمائیندے تھے)
عوام کو بے روزگار کیا فیوڈلز ،وڈیرے چوہدری مخدوم لغاری جتوئی ٹوانے سب بڑے زمیندار اسمبلیوں میں پہنچ گئے،
اور ایلیکٹیبلز بن گئے۔
اور صنعتکاروں کو تباہ کرکے لوگوں کو ان وڈیروں کا اور ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیاگیا ۔
اہل شعور اور خواندہ لوگوں کا متفق ھونا ضروری نہیں۔
"بلھا کی جانا میں کون"۔
طارق میر