ربطِ غم دِل سے مُعطّل نہیں ہونے والا
یہ ہے وہ مسئلہ جو حَل نہیں ہونے والا
آبلہ پائی ہے، ہجرت ہے، سمے بھی کم ہے
اور سفر اتنا کہ پیدل نہیں ہونے والا
مَر کے جینے کو بنا لیجیے عادت اپنی
کیوں کہ یہ "آج" کبھی "کَل" نہیں ہونے والا
اُس نے اِس درجہ مہارت سے مجھے توڑا ہے
جُڑ بھی جاؤں تو مُکمّل نہیں ہونے والا
ہم اسیرانِ وفا ہیں، ہمیں سونپو ہجراں
تم سے یہ کارِ مُسلسل نہیں ہونے والا !
اسیر ہاتف