خیال اس بات کا دل سے مرے اکثر نہیں جاتا
میں گھر جانے کی جلدی میں عموماً گھر نہیں جاتا
مجھے اک مسئلہ درپیش ہے کہ ہاتھ تو میرے
ترے پاؤں تلک جاتے ہیں لیکن سر نہیں جاتا
کسی کی بددعا ہے یا مرے پاؤں نہیں میرے
جہاں جانا ضروری ہو وہاں اکثر نہیں جاتا
وہ میرے ساتھ چلتا ہے کہ میں تنہا نہ ہو جاؤں
مگر اک فاصلہ رکھ کر جہاں پتھر نہیں جاتا
سُنا ہے آسمانوں سے ابابیلیں اترتی ہیں
مقابل ابرہہہ کے جب کوئی لشکر نہیں جاتا
غلط فہمی میں مت رہنا تعلق ٹوٹ جائے تو
تعلق مار دیتا ہے تعلق مر نہیں جاتا
وہ میرا دائرہ ہے اور میں اس میں مقید ہوں
میں چاہوں بھی نصیر اس سے کبھی باہر نہیں جاتا
شاعر جناب نصیر بلوچ صاحب