کچھ دن پہلے فیس بک پہ ایک تصویر دیکھی لکھا تھا
یہ 1923 کی تصویر ہے جس میں مصالحے اور پاپڑ بیچنے والی ایک دوکان نظر آ رہی ہے ۔ یہ دوکان غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں واقع تھی
بورڈ پر دوکان کا نام مہاشیاں دی ہٹی تحریر ہے ۔سیالکوٹ شہر آج پاکستان کا حصہ ہے- اس دوکان کے مالک کا نام مہاشے چننی لال گلاٹی تھا اور انہوں نے یہ دوکان
سیالکوٹ میں 1919 میں قایم کی تھی
بانی کے بیٹے مہاشے دھرم پال گلاٹی تقسیم ہند کے بعد دہلی چلے گئے۔ انہوں نے ایک جھونپڑی میں دکان کھولی اور اپنے والد کی طرح مصالحہ جات بیچنا شروع کر دیا، بعد میں انہوں نے اجمل خان روڈ قرول باغ میں اپنی دکان کھولی اور وہاں سے توسیع کی۔ 1959 میں انہوں نے کیرتی نگر میں ایک پلاٹ خریدا تاکہ اپنا مصالحہ کا کارخانہ قائم کرسکیں ۔ یہ انکا پہلا کارخانہ تھا
وہاں سے، انہوں نے نے پورے گروپ کو ہندوستان کی ایک سرکردہ مصالحہ ساز کمپنی میں تبدیل کر دیا جو آج 15 فیکٹریوں تک پھیل گیا اور ان کے برانڈ کا نام MDH ( مہاشیاں دی ھٹی ) ہے
ھے پھر پتہ چلا کہ یہ اس سال کا پرافٹ دوسوتیرہ کروڑ ھے پاکستان میں انڈسٹریز کیوں کامیاب نہی ہوتیں کیا وجہ ھے کہ پاکستان کا بزنس مین تباہ حال ھے ۔۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں انڈسٹریز کا جال بچھا پاکستان کو ایشین ٹاٸیگر کہا جانے لگا۔۔ پھر سوشلزم کی ہوا چلی بھٹو صاحب کی حکومت أٸ پھر وہ کیا وجوھات تھیں کے لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا ۔
ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔ قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے۔
دادا سیٹھ احمد داؤد کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی ۔اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔
بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ ے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا
احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی
فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں لگا چکا تھا
دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح،رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل سٹیل ملز کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی ان جیسے نام پاکستان کو دنیا میں متعارف کروارھے تھے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کرچکے تھے پی أٸ اے دنیا کی لاڈلی اٸر لاٸن بن چکی تھی
ایک نعرہ لگا
چھینو مل لٹیروں سے ‘‘۔چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا۔ ۔
بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ، 14 انشورنش کمپنیاں ، 10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا۔ سٹیل ملز کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا۔ تمام آٹو صنعتوں کو قومیا کر پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ علی موٹرز کو عوامی موٹرز، وزیر علی انجینئرنگ کو سندھ انجینرنگ، ہارون انڈسٹریز کو ریپبلک موٹرز، گندھارا موٹرز کو نیشنل موٹرز، کندھنوالہ موٹرز کو نیا دور موٹرز، ہائے سن کو ماک ٹرک، جعفر موٹرز کو ٹریلر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
جبکہ رانا ٹریکٹرز کو ملت ٹریکٹرز کا نام دے کر پاکستان ٹریکٹر کارپوریشن کا ادارہ قائم کیا گیا۔
پھر مال مفت دل ب رحم کی مثال پر جو جس کے ہاتھ لگا بیڑہ غرق کیا جن کا مال تھا ان سے چھین لیا گیا پر أگے نہ چلایا جا سکااس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح، لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا۔
۔ ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے۔
فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی۔
ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں ، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکہ چلے گئے۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں۔ کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے
اسکا اثر یہ ہوا آج تک ہماری صنعت مکمل بحال کیوں نہیں ہو سکی۔ اگر یہ تمام ادارے اپنے اصل مالکان کے پاس ہوتے تو آج پاکستان کے اپنے برینڈ لانچ ہو چکے ہوتے۔ آج ہمارے ملک کی بنی گاڑیاں، موٹر سائیکل ، ٹریکٹر اور ٹرک دوسرے ممالک کی سڑکوں پر نظر آ رہے ہوتے۔ بالکل ایسے جیسے ٹاٹا اور مہاہندرہ کی مصنوعات عرب دنیا اور افریقہ میں نظر آ رہی ہیں۔
آج ان قومیائی گئی صنعتوں میں سے صرف 3 ٹوٹی پھوٹی حالت میں کسی نہ کسی طرح زندہ ہیں۔ باقی سب کا وقت کے ساتھ انتقال ہو گیا۔
دنیا چالیس سال سے کمپیوٹر استعمال کر رہی ہے
اور ہم آج تک ایک ماؤس نہیں بنا سکے
دنیا تیس سال سے موبائل فون استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک چارجر نہیں بنا سکےہم بھی کیا لوگ ہیں
اپنی انڈسٹری اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے اب ہم چین کی منتیں کر رہے ہیں یہاں انڈسٹری لگائے۔
اور اس ساری تباہی کے ذمہ دار آج پھر وہی روٹی کپڑا اور مکان بھاشن لے کر آنے کی کوشش میں ہیں اگرچہ ان اپنے دماغ وہی پچاس سال پرانی روش پر پھنسا ہوا ہے