افغانیوں کو شکست دینے والا پنجابی مسلمان حکمران ادینہ ارائیں پنجابی۔
پیدائش 1710 شرقپور شریف، شیخوپورہ۔
ادینہ ارائیں پنجابی نے افغانیوں کو تین بار سے زیادہ مرتبہ شکست دی پنجاب میں سرہند سے درہ خیبر تک اور پنجاب کی سرحد درہ خیبر سے پشاور اٹک لاہور سرہند ہماچل جموں ملتان تک بحال کردی۔
سب سے پہلے 10 مارچ 1748 میں پنجاب میں سرہند کے قریب منوپور کی لڑائی میں ادینہ ارائیں پنجابی نے مغل گورنر میر منو ارائیں کے ماتحت لڑائی لڑی احمد شاہ ابدالی کی قیادت والے افغانی لشکروں کے خلاف اور افغانیوں کو شکست ہوئی۔ احمد شاہ کابلی کو ہزاروں کابلی فوجی مروانے کے بعد واپس کابل بھاگنا پڑا۔
یہ ان دوستوں کے لیے بھی علم ہے جن کو غلط فہمی ہے کہ ابدالی صرف مرہٹوں سے لڑنے آتا تھا۔ جبکہ ابدالی کے زیادہ تر حملے براہ راست مسلمانوں کے خلاف تھے۔ اس نے ایک بار نہیں بلکہ کئ بار حملے کیے پنجاب دیس اور مغل سلطنت پر۔
نادر شاہ کی قیادت میں بھی ابدالی مسلمانوں سے ہی لڑتا رہا بشمول غلزئی پشتونوں کے خلاف۔
جبکہ دوسری بار ادینہ ارائیں پنجابی نے مکمل اپنے وسائل و مقامی پنجابی فوجیوں کی مدد سے 11 اپریل 1755 کو پنجاب میں سرہند کی طرف جنگ کرکے قطب خان روہیلہ بڑیچ افغانی اور جمال افغانی کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کے لشکروں کو عبرتناک شکست دی۔
اس کے بعد ایک خودمختار پنجابی مملکت کی بحالی و واپسی کا آغاز کرنا شروع کردیا ادینہ نے سرہند سے لاہور اٹک ملتان پشاور جموں ہماچل وغیرہ تک۔
کئ فتح کیے گئے علاقے بعد میں کابل کے افغانی لشکر پھر سے چھینتے رہے جن کو بعد میں پھر واپس لیا ادینہ نے جس پر آگے بات ہوگی۔
چونکہ ہمارے کچھ پنجابی دوستوں کو افغانی لشکروں کا صفایا کرنے والے رنجیت کا نام سن کر اس کے ذاتی مذہب کی وجہ سے برا لگنا ہونا شروع ہوجاتا ہے اس لیے چلیں افغانیوں کے خلاف پنجاب میں لڑنے و شکست دینے والے شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ کے مسلمان پنجابی جنگجو و حاکم ادینہ ارائیں پنجابی کی بات کرلیتے ہیں جس نے مشکل ترین حالات کو اپنے اور پنجاب کے حق میں انتہائی چالاکی سے استعمال کرکے افغانیوں کی مٹی پلید کردی اور خودمختار پنجابی مملکت کی بحالی و واپسی کی جدوجہد کی۔۔
مقامی پنجابیوں کے لشکر جمع کرکے ادینہ ارائیں پنجابی نے افغانیوں کو شکست دی اور پھر سے خودمختار آزاد ملک پنجاب بحال کرنے کی کوشش کی جو دہلی کی سلطنت اور افغانیوں کے تسلط سے مکمل آزاد ہو اور جس میں پنجاب کے مقامی لشکر ہوں۔
پھر 1757 میں ادینہ پنجابی نے ماہلپور کی لڑائی میں افغانی لشکروں کو شکست دی۔
جبکہ بعد میں ادینہ ارائیں پنجابی نے افغانیوں سے مسلسل جنگوں کے بعد اپنی کمزور ہوتی فوجی قوت و وسائل اور سب سے بڑھ کر وقت محدود ہونے کی وجہ سے مارچ و اپریل 1758 سے مرہٹوں کو پیسوں اور اتحاد کا لالچ دیکر مرہٹہ فوج کو استعمال کرکے افغانیوں سے ایک بار پھر لاہور واپس لیا اور اس کے بعد پشاور و درہ خیبر تک کے علاقے آزاد کرواکر واپس لے لیے۔ افغانیوں کو شکست دیکر واپس کابل و قندھار تک محدود کردیا۔
تہمس نامہ کتاب کے مطابق ادینہ پنجابی نے کہا کہ افغانی درندہ صفت ظالم ہیں۔ جن کو مقامی افراد کے احساسات و جذبات کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس نے تنگ آکر فیصلہ کیا کہ وہ کب تک محدود طاقت اور مختصر وقت کے ساتھ افغانی لشکروں سے مسلسل لڑتا رہے گا، اس لیے کوئی حکمت عملی بنانی ہوگی (جس سے پنجابی قوت کو بڑھانے کا وقت مل سکے)۔ لہذا کوئی متبادل نہ ہونے اور محدود فوج و وقت ہونے کی وجہ سے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ادینہ نے مرہٹہ سالاروں رگوناتھ راؤ اور ملہاراؤ کو اتحاد اور پیسے کا لالچ دیا افغانیوں لشکروں کے خلاف مدد کے بدلے۔ اور اس طرح مرہٹہ فوج کو استعمال کیا۔
افغانیوں کی شکست کے بعد مرہٹہ فوج واپس چلی گئ پنجاب سے اور ادینہ نے وقتی طور پر مرہٹہ سامراج کو پیسے دیکر پنجاب کی حاکمیت حاصل کی، لیکن چونکہ ادینہ پنجابی کا مقصد پنجاب کو ہر بیرونی اثر سے آزاد کرنا تھا اس لیے مرہٹوں کے جاتے ہی ادینہ نے اپنی مقامی پنجابی فوجی قوت مضبوط کرنے کے لیے پھر سے مقامی پنجابی فوجیوں کہ بھرتی شروع کردی تاکہ مستقبل میں فوجی قوت مضبوط کرکے مرہٹوں کے اثر اور ان کو دینے والے پیسوں سے بھی جان چھڑاکر پنجاب دیس مکمل آزاد بنایا جاسکے لیکن افسوس ادینہ ارائیں پنجابی کو وقت نے مہلت نہ دی اور کچھ عرصے بعد 15 ستمبر 1758 کو اس کی وفات ہوگئ۔
پشاور سے لیکر اٹک لاہور ملتان جالندھر جموں ہماچل سرہند وغیرہ تک کا علاقہ افغانیوں کے تسلط سے آزاد بھی کرلیا،
لیکن ادینہ پنجابی کی زندگی نے وفا نہ کی، یوں پرانا دیس پنجاب جو بامیان و غزنی تک ہوتا تھا اسے بحال کرنے اور پنجاب کو سو فیصد آزاد بنانے کا مقصد ادھورا رہ گیا۔
کچھ لوگ آخری سال ادینہ کی طرف سے خالصہ جتھوں کے خلاف جنگ کو بھی ایک سٹریٹجک غلطی قرار دیتے ہیں، اڈی مہم کے دوران ادینہ کی وفات ہوئی۔ لیکن کچھ افراد کا موقف ہے کہ کچھ خالصہ جتھوں نے لوٹ مار اور قتل و غارت شروع کر رکھی تھی جس پر ادینہ پنجابی نے ان کو یہ سب بند کرنے کا حکم دیا لیکن بند نہ ہونے پر ادینہ نے بطور حاکم ایسے خالصہ جتھوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ لیکن ادینہ کا سکھوں کے خلاف ہونے کا الزام اس لیے بھی غلظ ہے کہ اس سے پہلے ماضی میں ادینہ کئ بار خالصہ جتھوں سے امن معاہدے اور فوجی اتحاد کرچکا تھا اور ایک بار مغل گورنر کے سخت حکم کے باوجود ادینہ نے خالصہ جتھوں کا مکمل قتل عام کرنے کی بجائے ان کی جان بخشی کرکے اہنے علاقے سے نکال دیا۔ اس کے علاوہ ادینہ کی فوج میں سکھ زمیندار اور سکھ فوجی بھی شامل تھے اس لیے ادینہ سکھوں کے خلاف ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایسے خالصہ گروپس کے خلاف تھا جو فساد سے باز نہیں آتے تھے۔ کیونکہ خود رنجیت سنگھ نے بھی بعد میں ایسے کئ سکھ مذہبی خالصہ مثلوں یا گروپس کے خلاف کارروائی کی۔
ادینہ پنجابی بےشک کوئی فرشتہ یا سادھو نہیں تھا، اس نے بھی باقی حکمرانوں کی طرح غلطیاں کیں، جرائم بھی کیے جیسے ایک مذہبی اجتماع کے موقع پر غیرمسلح خالصہ جتھوں کو قتل کرنا، حالانکہ بعد میں اس نے خالصہ جتھوں سے پھر سے فوجی اتحاد کرلیا افغانیوں کے خلاف، جبکہ کچھ افراد کے مطابق کچھ مواقع پر ادینہ نے خالصہ مذہبی جتھوں کو حد سے زیادہ کھلی چھوٹ دیکر بھی غلطی کی جس سے کئ جگہ لوٹ مار اور عوام کا قتل عام بھی ہوا، یاد رہے رنجیت سنگھ نے بھی سکھ ہوکر بھی کئ مذہبی خالصہ جتھوں کے خلاف لڑائیاں کی تھیں ان کی انتہاپسندی کی وجہ سے، اس کے علاوے مالوے کے سکھ بھی رنجیت سنگھ کے خلاف تھے۔ اس لیے جو لوگ رنجیت سنگھ کو صرف سکھوں کا حاکم کہتے ہیں وہ اپنا علم بڑھائیں۔ رنجیت سنگھ اور ادینہ ارائیں دونوں پنجاب دیس کے پنجابیوں کے حاکم تھے جنہوں نے افغانیوں کو شکست دی، ہاں فرق یہ تھا کہ ادینہ ارائیں پنجابی کی فوج میں مقامی پنجابی مسلمان اکثریت میں تھے اور پنجابی سکھ اور پنجابی ہندو اقلیت میں تھے کیونکہ پنجاب میں آبادی کا تناسب یہی تھا مختلف مذاہب کا، جبکہ رنجیت کی فوج میں پنجابی سکھ اکثریت میں تھے اور پنجابی مسلمان اور پنجابی ہندو اقلیت میں تھے اس کی فوج میں۔
لیکن خیر بہرحال اپنی تمام خوبیوں و کوتاہیوں کے باوجود ادینہ پنجابی وہ جنگجو تھا جس نے لمبت عرصے بعد مقامی پنجابیوں کے لشکروں کو جمع و مضبوط کرنے کی کوشش کی اور پنجاب دیس کو واپس آزاد شکل میں بحال کرنے کی جدوجہد کی اور کسی حد تک بحال کر بھی دیا۔
ادینہ پنجابی کی اطاعت کرکے اس کے لشکر و مملکت میں شامل ہونے والوں میں پنجاب کی تمام برادریاں اور مذاہب شامل تھے۔
جن میں پنجاب کے جہلم و راولپنڈی کے پنجابی گکھڑ، سارے پنجاب کے جنجوعے، سندھو ساغر دوآب کے اٹک وغیرہ کے گھیبہ زمیندار، چج دوآب کے چودھری رحمت وڑائچ، جموں کے راجہ رنجیت دیو، چودھری پیر محمد چٹھہ، عزت بخش، مراد بخش بھٹی، راجہ گھمند چند، ندھان سنگھ رندھاوا، مرزا محمد انور، کپورتھلہ کے رائے ابراہیم، بنکالہ، دسوہہ، کردنبالا اور پھگواڑہ کے رئیسان، راہون کے راجپوت، دریائے چناب کے علاقوں کے زمیندار، شامل تھے۔ یہاں تک کہ باری دوآب کے قصور اور دولپور کے پنجابی پٹھانوں نے بھی افغانیوں کے خلاف ادینہ ارائیں کے ساتھ اتحاد کیا، سب سے ظاہر ہے کہ ادینہ پنجابی کی لڑائی پٹھان نسل کے پنجابیوں اور سکھ ہندو مذاہب سے نہیں تھی بلکہ افغانی لشکروں اور فساد پھیلانے والے کچھ خالصہ گروپس سے تھی۔
پنجاب کے ادینہ ارائیں پنجابی نے مشکل ترین حالات میں جس طرح سیاسی حکمت عملی، چالاکی اور تدبیر سے پنجاب کو کسی حد تک واپس آذاد ملک پنجاب بحال کرنے کی جدوجہد کی، اس میں پنجابی اشرافیہ کے لیے سبق ہے کہ کس طرح پنجابی کاز و مققصد کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے مختلف قوتوں کو اپنے حق میں استعمال کرکے۔
سید محمد لطیف اپنی کتاب ہسٹری آف پنجاب میں لکھتے ہیں کہ:
خالصہ جتھوں کو اس نے آہرے لگاکر مصروف رکھا (رنجیت سنگھ کی طرح)، دہلی کی سلطنت کو اس نے ناپسند و حقیر جانا، افغانیوں کو اس نے حیران کیے رکھا اور مرہٹوں کو اس نے کمال مہارے سے اپنے حق میں استعمال کیا (پنجاب کی) آزادی حاصل کرنے کے لیے۔
حوالہ جات۔
Tahmas nama page 64
History of punjab by syed muhammad latif page 231-232 and 252-258
Studies in later mughal history of the punjab1707 to 1793 by hari ram gupta page 82, 99, 100, 165, 168, 173, 174.
History of the Sikhs: Evolution of Sikh Confederacies by Hari Ram Gupta
History of Sikhs Vol 2 by Hari Ram Gupta pg 99
History of Sikhs Vol 2 pg 103, 108, 112, 130
Special first and primary thanks to Sarang Punjabi from Punjabi Waseb website and then to Mehar Muhammad Ali Punjabi۔۔۔