Mussarat Hussain @Mussarat
#Thear
Joined: February 2022
0 Followers
Last seen: 4 hours ago
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 day ago
20 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
مارگوری میکایل 1705ء
دو مرتبہ دفن ہونے والی آئرش خاتون----
ملیریا سے دم توڑنے کے بعد آئرش خاتون مارگوری کو جلد قبر میں دفن کر دیا گیا کہ اس کی لاش سے وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
اُس کے شوہر نے مارگوری کو شادی پہ ایک قیمتی انگوٹھی تحفتاً دی تھی. اس کی موت کے بعد اس کا خاوند اس کے جسم پر سوجن ہو جانے کی وجہ سے انگوٹھی اتارنے میں ناکام رہا۔ مارگوری کی قیمتی انگوٹھی کا کچھ چوروں کو پتا چل گیا،  مارگوری کی تدفین کے بعد اسی شام ہی اس کی قبر پر چور پہنچ گئے، قبر کی کھدائی شروع کر دی۔ کوشش کے باوجود وہ لاش کی انگلی سے انگوٹھی نہ نکال سکے. انہوں نے انگلی کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ انگلی کاٹی تو خون کی دھار نکلی، مردہ لاش میں حرکت ہوئی، لاش چیخنے لگی۔ ڈاکو خوف سے بھاگ نکلے۔
مارگوری قبر سے باہر آ کر گھر چلی گئی۔ اس کا شوہر، فیملی ڈاکٹر اور اس کے بچے گھر میں سوگوار بیٹھے تھے۔ مارگوری نے اپنے گھر کے دروازے پہ دستک دی. اس کے شوہر نے دستک پہچانتے ہوے بچوں سے کہا:
" اگر آپ کی والدہ ابھی زندہ ہوتی تو، میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ اسی کی دستک ہوتی"
دروازہ کھولا، سامنے اس کی بیوی کفن میں ملبوس کھڑی تھی، انگلی سے خون ٹپک رہا تھا مگر، وہ زندہ لگ رہی تھی. شوہر یہ دیکھ کر فرش پر گر گیا. اس پر دل کا دورہ پڑا، موقع پر ہی انتقال کر گیا.
مارگوری نے دوسری شادی کی، کئی بچے ہوے۔ جب اس کی قدرتی موت ہو گئی، اسے آئرلینڈ "شنکیل قبرستان" میں دفنایا گیا. اس کی قبر پر کندہ ہے:
" زندگی ایک مرتبہ، موت دو مرتبہ Lived Once Burried Twice"
An Irish woman who was buried alive in the 18th century gave grave robbers the shock of their lives when she woke up during the robbery. Margorie McCall was born in 1705 in Lurgan, County Armagh. As an adult, she took ill and was pronounced dead. She was buried in the Shankill Graveyard.
See more
1 day ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
مارگوری میکایل 1705ء
دو مرتبہ دفن ہونے والی آئرش خاتون----
ملیریا سے دم توڑنے کے بعد آئرش خاتون مارگوری کو جلد قبر میں دفن کر دیا گیا کہ اس کی لاش سے وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
اُس کے شوہر نے مارگوری کو شادی پہ ایک قیمتی انگوٹھی تحفتاً دی تھی. اس کی موت کے بعد اس کا خاوند اس کے جسم پر سوجن ہو جانے کی وجہ سے انگوٹھی اتارنے میں ناکام رہا۔ مارگوری کی قیمتی انگوٹھی کا کچھ چوروں کو پتا چل گیا،  مارگوری کی تدفین کے بعد اسی شام ہی اس کی قبر پر چور پہنچ گئے، قبر کی کھدائی شروع کر دی۔ کوشش کے باوجود وہ لاش کی انگلی سے انگوٹھی نہ نکال سکے. انہوں نے انگلی کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ انگلی کاٹی تو خون کی دھار نکلی، مردہ لاش میں حرکت ہوئی، لاش چیخنے لگی۔ ڈاکو خوف سے بھاگ نکلے۔
مارگوری قبر سے باہر آ کر گھر چلی گئی۔ اس کا شوہر، فیملی ڈاکٹر اور اس کے بچے گھر میں سوگوار بیٹھے تھے۔ مارگوری نے اپنے گھر کے دروازے پہ دستک دی. اس کے شوہر نے دستک پہچانتے ہوے بچوں سے کہا:
" اگر آپ کی والدہ ابھی زندہ ہوتی تو، میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ اسی کی دستک ہوتی"
دروازہ کھولا، سامنے اس کی بیوی کفن میں ملبوس کھڑی تھی، انگلی سے خون ٹپک رہا تھا مگر، وہ زندہ لگ رہی تھی. شوہر یہ دیکھ کر فرش پر گر گیا. اس پر دل کا دورہ پڑا، موقع پر ہی انتقال کر گیا.
مارگوری نے دوسری شادی کی، کئی بچے ہوے۔ جب اس کی قدرتی موت ہو گئی، اسے آئرلینڈ "شنکیل قبرستان" میں دفنایا گیا. اس کی قبر پر کندہ ہے:
" زندگی ایک مرتبہ، موت دو مرتبہ Lived Once Burried Twice"
An Irish woman who was buried alive in the 18th century gave grave robbers the shock of their lives when she woke up during the robbery. Margorie McCall was born in 1705 in Lurgan, County Armagh. As an adult, she took ill and was pronounced dead. She was buried in the Shankill Graveyard.
See more
1 day ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
‏وہ داناۓسُبل ختم الرُسل مولاۓ کُل جس نے
‏غُبار  ِ  راہ   کو  بخشا   فروغ  ِ   وادئِ   سینا
‏نگہ ِ عشق و مستی میں وھی اول وھی آخر
‏وھی قرآں وھی فرقاں وھی یٰسیں وھی طٰہ
1 day ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
‏وہ داناۓسُبل ختم الرُسل مولاۓ کُل جس نے
‏غُبار  ِ  راہ   کو  بخشا   فروغ  ِ   وادئِ   سینا
‏نگہ ِ عشق و مستی میں وھی اول وھی آخر
‏وھی قرآں وھی فرقاں وھی یٰسیں وھی طٰہ
1 day ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
This could be an other Greek myth but see what it carries!
قدیم یونان میں ایک پہلوان تھا جس کا نام مائیلو Milo تھا. یہ اُس دور میں چھ دفعہ اولمپک جیت چکا تھا. اس پہلوان کی پہچان تھی یہ ایک بڑے بیل کو اپنے کندھے پر لے کر چلتا تھا. طاقت کا یہ نظارہ ہی اس کے مخالفین کیلئے کافی ہوتا. وہ جنگ سے پہلے ہی جنگ ہار جاتے تھے.
فرض کیا آپ بھی کورڈن گاوں میں ہوتے اور دیکھتے ملو ایک بیل کندھے پر بٹھائے چل رہا ہے تو آپ کیا کرتے..؟ آپ بھی ایک بیل کو اٹھانے کی کوشش کرتے اور ناکام ہو جاتے. لیکن ملو نے کسی کو دیکھ کر بیل نہیں اٹھایا تھا. اس نے بیل کے بچے کو سارا دن کندھے پر گھمانے سے یہ سفر شروع کیا تھا. تب شائد لوگ اس پر ہنستے ہوں گے.
روزانہ بیل کے بچھڑے کو کندھے پر بٹھا کر گھومنے والے ملو کی طاقت بیل کے بچے کی بڑھتی جسامت کے ساتھ بڑھتی چلی گئ. یہاں تک کہ اب یہ دیکھنے والوں کیلئے حیرت کے دور میں داخل ہوگئی. ملو اب اس جسامت کا بیل لیکر گھوم رہا ہوتا تھا جس کا دوسرا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.
مایوسی اپنی صلاحیت اپنی طاقت اور اپنا مقام کسی ایسے فرد کے ساتھ تولنے میں ملتی ہے جس کے ماضی کے سفر سے ہم آگاہ نہ ہوں. آپ بھی یہ سفر کسی بھی وقت شروع کر سکتے ہیں، لیکن آج کے اس مقام کیلئے شروعات کا یہ سفر شرط ہے.
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 days ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ﺳﻮﺭﺓ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ حیران کن ھﮯ __
ﯾﮧ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻻ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﺗﯽ ھﮯ …
ﮨﻤﯿﮟ ﻋﺪﻡ ﺳﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ, ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﻥ ؟ ﺍﻟﻠﮧ _____ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ !
ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﻥ __ ﺭَﺏِّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦَ
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﮭﺎﻣﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﻥ __ ’’ ﺍَﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦ ‘‘ …
ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ ھﻮﮞ ﮔﮯ ___ ’’ ﺍَﻟﺮَّﺣِﯿْﻢ …‘‘
ﮨﻤﯿﮟ ﺩﺍﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ’’___ ﻣَﺎﻟِﮏِ ﯾَﻮْﻡِ ﺍﻟﺪِّﯾْﻦ …‘‘
ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ____ ﺍِﯾَّﺎﮎَ ﻧَﻌْﺒُﺪُ …
ﺟﺐ ﻏﻼﻣﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺏ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﮭﮑﯿﮟ ﮔﮯ ’’___ ﻭَﺍِﯾَّﺎﮎَ ﻧَﺴْﺘَﻌِﯿْﻦ …‘‘
ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ھﻮ … ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ … ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺟﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﮮ ________ ﺍِﮬْﺪِﻧَﺎ ﺍﻟﺼِّﺮَﺍﻁَ ﺍﻟْﻤُﺴْﺘَﻘِﯿْﻢَ
ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﺍﺩﮮ _____ ﺻِﺮَﺍﻁَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺃَﻧْﻌَﻤْﺖَ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ
ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻏﻀﺐ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺩﮮ ______ ﻏَﻴْﺮِ ﺍﻟْﻤَﻐْﻀُﻮﺏِ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻭَﻟَﺎ ﺍﻟﻀَّﺎﻟِّﻴﻦَ
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ...!!
‎#
See more
2 days ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ذائقہ دار اصلی چپلی کباب
نقالوں سے ہوشیار
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
4 days ago
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ذائقہ دار اصلی چپلی کباب
نقالوں سے ہوشیار
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
4 days ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
نظام لوھار کی مکمل داستاں
انگریز حکومت کا جانی دشمن
اور
انگریزوں کے ناک میں دم کرنے والا گبرو جوان نظام لوہار قومی ہیرو شہید
ضلع قصور سے نمائندہ خصوصی نے یہ رپورٹ سینڈ کی ہے
نظام سال
1835ء میں ضلع امرتسر  کے علاقے “ترن تارن” (موجودہ ضلع ترن تارن، مشرقی پنجاب) کے قریب ایک گاؤں میں رھنے والے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ھوا۔ اسکا تعلق ایک بہت ھی غریب لوھار گھرانے سے تھا۔ بوڑھی ماں لوگوں کے مختلف کام کاج کر کے نظام کو تعلیم دلا رھی تھی، گھر میں جوان بہن تھی۔ نظام لوھار سکول میں پڑھتے ھوۓ بھی دوسروں سے الگ الگ رھا کرتا تھا مگر اسکے ھم عصر اور ھم جماعت ھرگز نہ جانتے تھے کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے کے منصوبے بناتا رھتا تھا۔ اردگرد کی کسان آبادیوں پر بھاری لگان اور پھر حکومت کے اھلکاروں کا مفلس کسانوں پر تشدد عام سی بات تھی۔ نظام لوھار اکثر اسی سوچ میں گم رھتا کہ غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ھو رھا ھے اسکی وجہ کیا ھے۔ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ساری برائی کی جڑ انگریز کی غلامی ھے۔
نظام لوھار کی باغیانہ سوچ
۔*.
جب نظام لوھار نے اپنی بھٹی میں پہلے لوھے کی ایک برچھی ڈھالی اور پھر ایک پستول بھی بنالیا تو اسکی ماں نے اسے خوب برا بھلا کہا کہ اگر کسی کو معلوم ھو گیا تو کیا ھو گا؟ وہ مسکرایا اور چپ رھا۔ اسکے اندر ایک نیا انسان جنم لے رھا تھا۔ اسکے چہرے کی مسکراھٹ اسکے باغیانہ خیالات کا آئینہ بن گئی۔ آھستہ آھستہ سارے سکول اور سارے گاؤں کو پتا چل گیا کہ نظام لوھار کے پاس کون کون سے ھتھیار ہیں۔ نظام لوھار اپنی باغیانہ سوچوں میں گم رات گئے تک گھر سے باھر رھا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ھے کہ قدرت اسکے “جذبہ بغاوت” کو پختہ تر کرنا چاھتی تھی۔ شروع میں نظام لوھار نے نچلی سطح پر انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ نظام لوھار نے مقامی باغی لیڈروں “اجیت سنگھ” اور “ملکیت سنگھ” کو خفیہ طور پر ھتھیار بنا کر دینے شروع کر دیئے اور خود بھی انگریز سرکار کے خلاف مسلح کاروائیاں شروع کر دیں۔ انگریزوں کو نظام لوھار پر شک ھونے لگا لیکن انہیں نظام لوھار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رھا تھا کیونکہ نظام لوھار ھر واردات کے بعد بچ نکلنے میں کامیاب ھو جاتا تھا۔
انگریز سرکار کا ظلم
۔*.
نظام لوھار اپنے گھر کے ایک خفیہ تہہ خانے میں ھتھیار چھپا کر رکھتا تھا۔ ایک دن نظام لوھار کی غیر موجودگی میں ترن تارن پولیس نے “انگریز کیپٹن کول” کی سربراھی میں اس کے گھر چھاپہ مارا اور ھتھیار برآمد کر لئے۔ “کیپٹن کول” نے نظام لوھار کی ماں اور بہن پر بہت زیادہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں نظام لوھار کی ماں دم توڑ گئی۔
چنانچہ رات کو جب نظام لوھار واپس آیا تو دیکھا کہ ماں مر چکی ھے اور جوان بہن کے کپڑے تار تار ہیں۔ بہن نے بتایا کہ تمہارے پیچھے انگریز پولیس کپتان آیا تھا۔ اس نے گھر کی تلاشی لے کر تمہاری پستول اور برچھی ڈھونڈ نکالی اور ماں کو اس قدر مارا کہ وہ مر گئی ، میں نے مزاحمت کی تو مجھے بھی بری طرح زدوکوب کیا۔ نظام لوھار کے لئے یہ واقعہ اسکی زندگی کا فیصلہ کن موڑ تھا۔ اسی رات اس نے اپنی بہن کو ساتھ لے جاکر اپنے ایک دوست شفیع سے اسکا بیاہ کر دیا اور خود گھر بار چھوڑ کر ایک اجاڑ حویلی میں پناہ لے لی جو آج تک ”ککراں والی حویلی“ کے نام سے مشہور ھے۔
نظام لوھار کی مشہوری
۔.
دوسری رات نظام لوھار تھانے میں پہنچا اور “کپتان کول” کو قتل کر دیا جس نے اسکی ماں کا خون کیا تھا اور فرار ھو گیا۔ اب نظام لوھار کھل کر انگریز سرکار کے خلاف سامنے آچکا تھا۔ جب انگریز کپتان کے قتل کی خبر علاقے میں پھیلی تو لوگ خوشی سے دیوانے ھو گئے۔ یہ بدنیت گورا کسان عورتوں کی بےحرمتی کرتا تھا اور غریب کسانوں سے بیگار لیتا تھا۔ “کپتان کول” کے قتل پر ابھی ترنجنوں اور چوپالوں میں بحث جاری تھی کہ نظام لوھار نے  “سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رونالڈ” کو کئی ساتھیوں سمیت قتل کر دیا۔ رونالڈ کی مسخ شدہ لاش دھپ سڑی پتن پر روھی نالے میں پائی گئی۔ جب انگریز پولیس وھاں پہنچی تو نظام لوھار کی برچھی رونالڈ کے سینے میں گڑی تھی۔ اب نظام لوھار انگریز سرکار کے لئے دھشت کی علامت بن چکا تھا لیکن عوام کی نظروں میں ایک ھیرو کے طور پر ابھرا اور گھر گھر میں نظام لوھار کے چرچے ھونے لگے۔
دس ھزار روپے اور چار مربعے زمین کا انعام
۔۔
اسکے بعد انگریز حکومت کے لئے نظام لوھار ایک طعنہ بن گیا اور سارے پنجاب میں نظام لوھار کے خلاف اشتہار لگ گئے۔
“دس ھزار روپے اور چار مربعے زمین حاصل کیجئے”
جو نظام لوھار کو زندہ یا مردہ گرفتار کرے گا اسے کچہری میں کرسی ملے گی۔ ان اشتہاروں کے مقابلے میں نواحی دیہات میں غریب لوگوں نے یہ دھمکی پھیلا دی کہ جو کوئی نظام لوھار کے ساتھ غداری کرے گا اسے وہ جان سے مار دیں گے۔ اردگرد کے دیہات میں یہ بات زبان زد عام تھی
“جیہنے وی نظام دی مخبری کیتی
اوھدا گھر ساڑ دتا جاوے گا”
(یعنی جس کسی نے بھی نظام لوھار کی مخبری کی اس کا گھر جلا دیا جائے گا)۔ یہ بات سن کر انگریز سرکار کانپ اٹھی۔ عوام کے نزدیک نظام لوھار کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف پنجاب کی مزاحمت کا علم بن گیا تھا۔
نظام لوھار اور سوجھا سنگھ
۔.
ایک رات پولیس نے تحصیل “پٹی” کے ایک قبرستان پر چھاپہ مارا مگر نظام لوھار اس اڈے کو چھوڑ کر موضع سوھی کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسکی ملا قات علاقے کے مشہور باغی “سوجھا سنگھ” کی ماں “جیتاں” سے ھوئی جو بین کرتی جارھی تھی۔ نظام لوھار نے وجہ پوچھی تو “جیتاں” نے بتایا کہ سوجھا سنگھ کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی ھے۔ نظام لوھار نے جیتاں کو تسلی دی اور خود سوجھا سنگھ کو چھڑانے کے لئے ”ٹبہ کمال چشتی” کی طرف چل دیا۔ پولیس سے مقابلے کے بعد نظام لوھار نے سوجھا سنگھ کو چھڑالیا۔ سوجھا سنگھ کی ماں جیتاں نے نظام کو اپنا بیٹا بنالیا اور وہ اسی کے پاس رھنے لگا۔ اس کے بعد نظام لوھار اور سوجھا سنگھ نے مل کر اوپر تلے انگریزوں کے چار اعلی پولیس افسروں کو قتل کر دیا۔ وہ انگریز حکومت کے لئے دردسر بن گئے۔
پنجاب چھڈ دیو تحریک
۔.
ادھر لاھور اور قصور کے در میانی علاقے ماجھے کے انقلابی “جبرو جٹ” کو نظام لوھار کے کارناموں کی خبر ھوئی تو وہ بھی آکر نظام لوھار سے مل گیا۔ اس طرح “نظام لوھار”,  سوجھا سنگھ” اور “جبرو جٹ” نے مل کر انگریز حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کیا جس کا نام تھا
“پنجاب چھڈ دیو تحریک”
(یعنی پنجاب چھوڑ دو تحریک)۔ آھستہ آھستہ پنجاب بھر سے باغی نظام لوھار کی سربراھی میں اس تحریک کا حصہ بنتے گئے اور انگریز سرکار کے خلاف مسلح کاروائیاں شروع کر دیں اور علاقے بانٹ کر کسانوں کو ساتھ ملانے کے لئے راتوں کو گاؤں گاؤں پھرنے لگے۔ آخر فیصلہ ھوا کہ میلوں اور عرسوں میں جا کر انگریز پولیس افسروں کو قتل کیاجائے اور یہ کہہ کر قتل کیاجاۓ کہ
“پنجاب چھڈ دیو”
اس تحریک کے نتیجے میں سینکڑوں انگریز افسروں اور فوجیوں کو قتل کیا گیا اور ان سے مال اسباب لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کیا گیا۔
نظام لوھار اور ھندو لڑکی “موھنی”
۔.
“پنجاب چھڈ دیو تحریک” کے سلسلے میں ایک دن
نظام لوھار ستلج پار بسنت کے میلے پر جارھا تھا کہ راستے میں اسے پیاس لگ گئی۔ اس نے میلے میں جاتی ھوئی ایک لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا۔ لڑکی نے نظام لوھار کو لسی دی۔ نظام لوھار نے خوش ھو کر اسے کچھ رقم دینی چاھی مگر لڑکی نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ یہ نظام لوھار کا علاقہ ھے، یہ رقم میرے کس کام کی، یہ رقم تو وہ چھین لے گا۔ اس پر نظام لوھار نے اپنا آپ ظاہر کر دیا اور کہا کہ پنجاب کی ھر لڑکی میری بہن ھے، میں تو صرف انگریزوں کے خلاف ھوں اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاھتا ھوں۔
اس لڑکی کانام “موھنی” تھا۔ وہ میلے میں نظام لوھار سے پھر ملی اور اسکی کلائی پر راکھی باندھ دی (ھندو مذھب میں بہنیں نیک شگون کے طور پر اپنے بھائیوں کی کلائی پر ایک دھاگہ باندھتی ہیں جس کو “راکھی”  یا  “رکھڑی” کہتے ہیں)۔ پھر اس نے بتایا کہ اسی ھفتے اسکی شادی ھے۔ نظام لوھار نے اسکی شادی پر آنے کاوعدہ کیا۔ میلے سے واپس جاتے ھوئے نظام لوھار نے “انسپکٹر آئس” کو قتل کر دیا۔ اس سے سارے میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ مگر اس طرح نظام لوھار کا پیغام پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا اور لوگ اسکے مقصد سے ھمدردی کرنے لگے۔
نظام لوھار نے چند ساھوکاروں کی حویلیوں پر ڈاکے ڈالے، بہت سا مال اکٹھا کیا اور شادی والے دن یہ سارا مال اپنی منہ بولی بہن “موھنی” کو دے آیا۔ اگرچہ اسے موھنی کے گاؤں سے فرار ھونے میں بڑی مشکل پیش آئی مگر سوجھا سنگھ اور جبرو جٹ جیسے ساتھیوں نے نظام لوھار کی مدد کی اور وہ وھاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ھو گیا۔
نظام لوھار کے خلاف سازش
۔*.
اب نظام لوھار پنجاب کی انگریز پولیس کے لئے طعنے سے بڑھ کر خوف کی علامت بن چکا تھا۔ “ایس پی جان لیو” نے نظام لوھار کو پیغام بھجوا کر اس سے بات چیت کرنی چاھی۔ مگر اصل میں یہ اسے قتل کرنے کی سازش تھی۔ نظام لوھار نے اپنے اردگرد بھیس بدل کر موجود سپاہیوں کو تاڑ لیا تھا۔ چنانچہ وہ “ایس پی جان لیو” کو اپنی گولی کا نشانہ بنا کر نکل بھاگا اور تین ماہ تک چھانگا مانگا کے علاقے میں جبرو جٹ کے پاس چھپا رھا۔
انگریز سرکار نے “پنجاب چھڈ دیو تحریک” کو ناکام بنانے کیلئے ایک شاطر چال چلتے ھوئے ایک بدکردار لڑکی “پچھیا ماچھن” کو سوجھا سنگھ سے نتھی کر دیا۔ ایک دن نظام لوھار سوجھا سنگھ کی ماں “جیتاں” کی بیماری کی خبر سن کر واپس حویلی آگیا۔ اسی اثناء میں نظام لوھار کو معلوم ھوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں “جٹاں دا کھوہ“ کی ایک لڑکی “پچھیا ماچھن” سے پیار کی پینگیں بڑھا رھا ھے۔ نظام لوھار کو یہ بات پسند نہ آئی، اس نے “پچھیا ماچھن” کو بلا کر سخت سست کہا۔ نظام لوھار کا خیال تھا کہ عشق انسان کو بزدل بنا دیتا ھے اور عشق کے چکر میں سوجھا سنگھ پولیس کے ھاتھ آسکتا ھے۔
نظام لوھار کے ساتھ سوجھا سنگھ کی غداری
۔*.
پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ کے کان بھرے تو وہ نظام لوھار کے خلاف ھوگیا۔ دس ھزار روپے نقد اور چار مربعے زمین کے انعام پر اسکا دل للچا گیا۔ پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ سے کہا تھا کہ دیکھ قتل تو نظام کر تا ھے مگر پھانسی ساتھ میں تجھے بھی ھو جائے گی۔
ایک رات نظام لوھار اپنی منہ بولی ماں “جیتاں” کی تیمارداری کے لئے سوجھا سنگھ کے گھر آیا۔ سوجھا سنگھ نے تھانہ بھیٹریالہ میں اطلاع دے دی کہ نظام لوھار آج ھمارے ھاں بطور مہمان ٹھہرا ھوا ھے اور کل وہ “کالے کھوہ” واپس چلا جائے گا۔ نظام لوھار جس کمرے میں سویا ھوا تھا دو گھنٹے کے اندر اندر اسے پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور چند سپاھی کمرے کے اوپر چڑھ کر کمرے کی چھت توڑنے میں مصروف ھو گئے۔ نظام لوھار کو پتہ چل گیا۔ اس کی گھوڑی کمرے ھی میں بندھی تھی وہ فوراً سوار ھوا۔ اس نے سر پر لوھے کا تانبیہ اوڑھ لیا تاکہ گولیوں سے بچ سکے مگر اس طرح اسے کچھ نظر نہ آرھا تھا۔ اس نے گھوڑی کو بھگانے کے لئے سیٹی ماری، گھوڑی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی تو لوھے کا تانبیہ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا گیا۔ نظام لوھار زخمی ھونے کے بعد بیہوش ھوکر کمرے کے اندر گر پڑا۔ پھر کیا تھا، پولیس اڑتالیس گھنٹے تک اس کمرے پر گولیاں برساتی رھی، تیسرے دن نظام کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے قصور سول ھسپتال میں لایا گیا۔
سوجھا سنگھ کی ماں کا تاریخی جملہ
۔*.
نظام لوھار کی لاش کو سول ھسپتال قصور میں پہنچانے کے بعد پولیس واپس تھانے آگئی۔ سوجھا سنگھ بھی انعام حاصل کرنے کیلئے تھانے پہنچ گیا۔  جبرو جٹ کو پولیس پہلے ھی گرفتار کر چکی تھی۔ ادھر جب سوجھا سنگھ کی ماں “جیتاں” کو پتہ چلا کہ اس کا منہ بولا بیٹا نظام لوھار اس کے حقیقی بیٹے سوجھا سنگھ کی غداری کی وجہ سے مارا گیا ھے تو “جیتاں” کیلئے یہ ایک مشکل ترین لمحہ تھا۔ ایک طرف اس کے حقیقی غدار بیٹے کی ممتا تھی اور دوسری طرف اس کے منہ بولے دھرمی بیٹے کی شہادت کا غم تھا۔ جیتاں نے اپنے دھرمی بیٹے کے حق میں فیصلہ دے کر پنجاب دھرتی کی ایک عظیم ماں ھونے کا ثبوت دیا۔ جیتاں نے تھانے پہنچ کر سوجھا سنگھ کا سر تلوار کے وار سے تن سے جدا کر دیا اور جبرو جٹ کو گواہ بنا کر وہ تاریخی جملہ کہا جو پنجاب کی تاریخ میں امر ھو گیا۔ جیتاں نے کہا
“سوجھیا توں مردے مردے اک ھور دکھ وی نال لے کے جا، میں تینوں 32 دھاراں نئیں بخشاں گی تے جبرو توں گواہ رئیں میں ایہنوں کیوں ماریا اے”
(سوجھیا تو مرتے مرتے ایک اور دکھ بھی اپنے ساتھ لیتا جا، میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور جبرو تم گواہ رھنا کہ میں نے اسے کیوں قتل کیا)
نظام لوھار کا جنازہ
۔.
اپنے سورما کی لاش دیکھنے اور جنازہ میں شرکت کے لئے دور دراز سے عوام ھزاروں کی تعداد میں قصور پہنچی ۔ اس موقع پر حکومت نے اعلان کر دیا کہ جو شخص نظام لوھار کی نماز جنازہ میں شریک ھوگا اسے دو روپے ادا کرنے ھونگے، اس دور میں دو روپے عوام کے لیے بھاری رقم تھی۔ اس کے باوجود لوگوں نے جوق در جوق نماز جنازہ پڑھی اور نتیجے میں 35000 روپے (پینتیس ہزار روپے) اکٹھے ھوئے جو آج کے پینتیس کروڑ سے بھی زیادہ قیمت رکھتے تھے۔ حاضرین نے نظام لوھار کی قبر پر عقیدت اور احترام کے طور پر اس قدر پھولوں کی چادریں چڑھائیں کہ اسکی قبر پھولوں کا ایک پہاڑ بن گئی۔ پنجاب کے اس جوانمرد کی قبر پنجاب کے شہر قصور کے بڑے قبرستان میں موجود ھے۔
ایسے ہیرو جن کو تاریخ نے چھپا دیا بتائیں گے اپ کو ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہمارے سپیشل  پیج کو ضرور اگے سے اگے شیئر کیجئے.
رپورٹ
سردار اصغر علی مجاہد اف سہتی ریٹائرڈ پولیس افیسر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لاہور
See more
4 days ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
نظام لوھار کی مکمل داستاں
انگریز حکومت کا جانی دشمن
اور
انگریزوں کے ناک میں دم کرنے والا گبرو جوان نظام لوہار قومی ہیرو شہید
ضلع قصور سے نمائندہ خصوصی نے یہ رپورٹ سینڈ کی ہے
نظام سال
1835ء میں ضلع امرتسر  کے علاقے “ترن تارن” (موجودہ ضلع ترن تارن، مشرقی پنجاب) کے قریب ایک گاؤں میں رھنے والے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ھوا۔ اسکا تعلق ایک بہت ھی غریب لوھار گھرانے سے تھا۔ بوڑھی ماں لوگوں کے مختلف کام کاج کر کے نظام کو تعلیم دلا رھی تھی، گھر میں جوان بہن تھی۔ نظام لوھار سکول میں پڑھتے ھوۓ بھی دوسروں سے الگ الگ رھا کرتا تھا مگر اسکے ھم عصر اور ھم جماعت ھرگز نہ جانتے تھے کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے کے منصوبے بناتا رھتا تھا۔ اردگرد کی کسان آبادیوں پر بھاری لگان اور پھر حکومت کے اھلکاروں کا مفلس کسانوں پر تشدد عام سی بات تھی۔ نظام لوھار اکثر اسی سوچ میں گم رھتا کہ غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ھو رھا ھے اسکی وجہ کیا ھے۔ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ساری برائی کی جڑ انگریز کی غلامی ھے۔
نظام لوھار کی باغیانہ سوچ
۔*.
جب نظام لوھار نے اپنی بھٹی میں پہلے لوھے کی ایک برچھی ڈھالی اور پھر ایک پستول بھی بنالیا تو اسکی ماں نے اسے خوب برا بھلا کہا کہ اگر کسی کو معلوم ھو گیا تو کیا ھو گا؟ وہ مسکرایا اور چپ رھا۔ اسکے اندر ایک نیا انسان جنم لے رھا تھا۔ اسکے چہرے کی مسکراھٹ اسکے باغیانہ خیالات کا آئینہ بن گئی۔ آھستہ آھستہ سارے سکول اور سارے گاؤں کو پتا چل گیا کہ نظام لوھار کے پاس کون کون سے ھتھیار ہیں۔ نظام لوھار اپنی باغیانہ سوچوں میں گم رات گئے تک گھر سے باھر رھا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ھے کہ قدرت اسکے “جذبہ بغاوت” کو پختہ تر کرنا چاھتی تھی۔ شروع میں نظام لوھار نے نچلی سطح پر انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ نظام لوھار نے مقامی باغی لیڈروں “اجیت سنگھ” اور “ملکیت سنگھ” کو خفیہ طور پر ھتھیار بنا کر دینے شروع کر دیئے اور خود بھی انگریز سرکار کے خلاف مسلح کاروائیاں شروع کر دیں۔ انگریزوں کو نظام لوھار پر شک ھونے لگا لیکن انہیں نظام لوھار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رھا تھا کیونکہ نظام لوھار ھر واردات کے بعد بچ نکلنے میں کامیاب ھو جاتا تھا۔
انگریز سرکار کا ظلم
۔*.
نظام لوھار اپنے گھر کے ایک خفیہ تہہ خانے میں ھتھیار چھپا کر رکھتا تھا۔ ایک دن نظام لوھار کی غیر موجودگی میں ترن تارن پولیس نے “انگریز کیپٹن کول” کی سربراھی میں اس کے گھر چھاپہ مارا اور ھتھیار برآمد کر لئے۔ “کیپٹن کول” نے نظام لوھار کی ماں اور بہن پر بہت زیادہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں نظام لوھار کی ماں دم توڑ گئی۔
چنانچہ رات کو جب نظام لوھار واپس آیا تو دیکھا کہ ماں مر چکی ھے اور جوان بہن کے کپڑے تار تار ہیں۔ بہن نے بتایا کہ تمہارے پیچھے انگریز پولیس کپتان آیا تھا۔ اس نے گھر کی تلاشی لے کر تمہاری پستول اور برچھی ڈھونڈ نکالی اور ماں کو اس قدر مارا کہ وہ مر گئی ، میں نے مزاحمت کی تو مجھے بھی بری طرح زدوکوب کیا۔ نظام لوھار کے لئے یہ واقعہ اسکی زندگی کا فیصلہ کن موڑ تھا۔ اسی رات اس نے اپنی بہن کو ساتھ لے جاکر اپنے ایک دوست شفیع سے اسکا بیاہ کر دیا اور خود گھر بار چھوڑ کر ایک اجاڑ حویلی میں پناہ لے لی جو آج تک ”ککراں والی حویلی“ کے نام سے مشہور ھے۔
نظام لوھار کی مشہوری
۔.
دوسری رات نظام لوھار تھانے میں پہنچا اور “کپتان کول” کو قتل کر دیا جس نے اسکی ماں کا خون کیا تھا اور فرار ھو گیا۔ اب نظام لوھار کھل کر انگریز سرکار کے خلاف سامنے آچکا تھا۔ جب انگریز کپتان کے قتل کی خبر علاقے میں پھیلی تو لوگ خوشی سے دیوانے ھو گئے۔ یہ بدنیت گورا کسان عورتوں کی بےحرمتی کرتا تھا اور غریب کسانوں سے بیگار لیتا تھا۔ “کپتان کول” کے قتل پر ابھی ترنجنوں اور چوپالوں میں بحث جاری تھی کہ نظام لوھار نے  “سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رونالڈ” کو کئی ساتھیوں سمیت قتل کر دیا۔ رونالڈ کی مسخ شدہ لاش دھپ سڑی پتن پر روھی نالے میں پائی گئی۔ جب انگریز پولیس وھاں پہنچی تو نظام لوھار کی برچھی رونالڈ کے سینے میں گڑی تھی۔ اب نظام لوھار انگریز سرکار کے لئے دھشت کی علامت بن چکا تھا لیکن عوام کی نظروں میں ایک ھیرو کے طور پر ابھرا اور گھر گھر میں نظام لوھار کے چرچے ھونے لگے۔
دس ھزار روپے اور چار مربعے زمین کا انعام
۔۔
اسکے بعد انگریز حکومت کے لئے نظام لوھار ایک طعنہ بن گیا اور سارے پنجاب میں نظام لوھار کے خلاف اشتہار لگ گئے۔
“دس ھزار روپے اور چار مربعے زمین حاصل کیجئے”
جو نظام لوھار کو زندہ یا مردہ گرفتار کرے گا اسے کچہری میں کرسی ملے گی۔ ان اشتہاروں کے مقابلے میں نواحی دیہات میں غریب لوگوں نے یہ دھمکی پھیلا دی کہ جو کوئی نظام لوھار کے ساتھ غداری کرے گا اسے وہ جان سے مار دیں گے۔ اردگرد کے دیہات میں یہ بات زبان زد عام تھی
“جیہنے وی نظام دی مخبری کیتی
اوھدا گھر ساڑ دتا جاوے گا”
(یعنی جس کسی نے بھی نظام لوھار کی مخبری کی اس کا گھر جلا دیا جائے گا)۔ یہ بات سن کر انگریز سرکار کانپ اٹھی۔ عوام کے نزدیک نظام لوھار کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف پنجاب کی مزاحمت کا علم بن گیا تھا۔
نظام لوھار اور سوجھا سنگھ
۔.
ایک رات پولیس نے تحصیل “پٹی” کے ایک قبرستان پر چھاپہ مارا مگر نظام لوھار اس اڈے کو چھوڑ کر موضع سوھی کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسکی ملا قات علاقے کے مشہور باغی “سوجھا سنگھ” کی ماں “جیتاں” سے ھوئی جو بین کرتی جارھی تھی۔ نظام لوھار نے وجہ پوچھی تو “جیتاں” نے بتایا کہ سوجھا سنگھ کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی ھے۔ نظام لوھار نے جیتاں کو تسلی دی اور خود سوجھا سنگھ کو چھڑانے کے لئے ”ٹبہ کمال چشتی” کی طرف چل دیا۔ پولیس سے مقابلے کے بعد نظام لوھار نے سوجھا سنگھ کو چھڑالیا۔ سوجھا سنگھ کی ماں جیتاں نے نظام کو اپنا بیٹا بنالیا اور وہ اسی کے پاس رھنے لگا۔ اس کے بعد نظام لوھار اور سوجھا سنگھ نے مل کر اوپر تلے انگریزوں کے چار اعلی پولیس افسروں کو قتل کر دیا۔ وہ انگریز حکومت کے لئے دردسر بن گئے۔
پنجاب چھڈ دیو تحریک
۔.
ادھر لاھور اور قصور کے در میانی علاقے ماجھے کے انقلابی “جبرو جٹ” کو نظام لوھار کے کارناموں کی خبر ھوئی تو وہ بھی آکر نظام لوھار سے مل گیا۔ اس طرح “نظام لوھار”,  سوجھا سنگھ” اور “جبرو جٹ” نے مل کر انگریز حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کیا جس کا نام تھا
“پنجاب چھڈ دیو تحریک”
(یعنی پنجاب چھوڑ دو تحریک)۔ آھستہ آھستہ پنجاب بھر سے باغی نظام لوھار کی سربراھی میں اس تحریک کا حصہ بنتے گئے اور انگریز سرکار کے خلاف مسلح کاروائیاں شروع کر دیں اور علاقے بانٹ کر کسانوں کو ساتھ ملانے کے لئے راتوں کو گاؤں گاؤں پھرنے لگے۔ آخر فیصلہ ھوا کہ میلوں اور عرسوں میں جا کر انگریز پولیس افسروں کو قتل کیاجائے اور یہ کہہ کر قتل کیاجاۓ کہ
“پنجاب چھڈ دیو”
اس تحریک کے نتیجے میں سینکڑوں انگریز افسروں اور فوجیوں کو قتل کیا گیا اور ان سے مال اسباب لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کیا گیا۔
نظام لوھار اور ھندو لڑکی “موھنی”
۔.
“پنجاب چھڈ دیو تحریک” کے سلسلے میں ایک دن
نظام لوھار ستلج پار بسنت کے میلے پر جارھا تھا کہ راستے میں اسے پیاس لگ گئی۔ اس نے میلے میں جاتی ھوئی ایک لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا۔ لڑکی نے نظام لوھار کو لسی دی۔ نظام لوھار نے خوش ھو کر اسے کچھ رقم دینی چاھی مگر لڑکی نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ یہ نظام لوھار کا علاقہ ھے، یہ رقم میرے کس کام کی، یہ رقم تو وہ چھین لے گا۔ اس پر نظام لوھار نے اپنا آپ ظاہر کر دیا اور کہا کہ پنجاب کی ھر لڑکی میری بہن ھے، میں تو صرف انگریزوں کے خلاف ھوں اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاھتا ھوں۔
اس لڑکی کانام “موھنی” تھا۔ وہ میلے میں نظام لوھار سے پھر ملی اور اسکی کلائی پر راکھی باندھ دی (ھندو مذھب میں بہنیں نیک شگون کے طور پر اپنے بھائیوں کی کلائی پر ایک دھاگہ باندھتی ہیں جس کو “راکھی”  یا  “رکھڑی” کہتے ہیں)۔ پھر اس نے بتایا کہ اسی ھفتے اسکی شادی ھے۔ نظام لوھار نے اسکی شادی پر آنے کاوعدہ کیا۔ میلے سے واپس جاتے ھوئے نظام لوھار نے “انسپکٹر آئس” کو قتل کر دیا۔ اس سے سارے میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ مگر اس طرح نظام لوھار کا پیغام پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا اور لوگ اسکے مقصد سے ھمدردی کرنے لگے۔
نظام لوھار نے چند ساھوکاروں کی حویلیوں پر ڈاکے ڈالے، بہت سا مال اکٹھا کیا اور شادی والے دن یہ سارا مال اپنی منہ بولی بہن “موھنی” کو دے آیا۔ اگرچہ اسے موھنی کے گاؤں سے فرار ھونے میں بڑی مشکل پیش آئی مگر سوجھا سنگھ اور جبرو جٹ جیسے ساتھیوں نے نظام لوھار کی مدد کی اور وہ وھاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ھو گیا۔
نظام لوھار کے خلاف سازش
۔*.
اب نظام لوھار پنجاب کی انگریز پولیس کے لئے طعنے سے بڑھ کر خوف کی علامت بن چکا تھا۔ “ایس پی جان لیو” نے نظام لوھار کو پیغام بھجوا کر اس سے بات چیت کرنی چاھی۔ مگر اصل میں یہ اسے قتل کرنے کی سازش تھی۔ نظام لوھار نے اپنے اردگرد بھیس بدل کر موجود سپاہیوں کو تاڑ لیا تھا۔ چنانچہ وہ “ایس پی جان لیو” کو اپنی گولی کا نشانہ بنا کر نکل بھاگا اور تین ماہ تک چھانگا مانگا کے علاقے میں جبرو جٹ کے پاس چھپا رھا۔
انگریز سرکار نے “پنجاب چھڈ دیو تحریک” کو ناکام بنانے کیلئے ایک شاطر چال چلتے ھوئے ایک بدکردار لڑکی “پچھیا ماچھن” کو سوجھا سنگھ سے نتھی کر دیا۔ ایک دن نظام لوھار سوجھا سنگھ کی ماں “جیتاں” کی بیماری کی خبر سن کر واپس حویلی آگیا۔ اسی اثناء میں نظام لوھار کو معلوم ھوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں “جٹاں دا کھوہ“ کی ایک لڑکی “پچھیا ماچھن” سے پیار کی پینگیں بڑھا رھا ھے۔ نظام لوھار کو یہ بات پسند نہ آئی، اس نے “پچھیا ماچھن” کو بلا کر سخت سست کہا۔ نظام لوھار کا خیال تھا کہ عشق انسان کو بزدل بنا دیتا ھے اور عشق کے چکر میں سوجھا سنگھ پولیس کے ھاتھ آسکتا ھے۔
نظام لوھار کے ساتھ سوجھا سنگھ کی غداری
۔*.
پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ کے کان بھرے تو وہ نظام لوھار کے خلاف ھوگیا۔ دس ھزار روپے نقد اور چار مربعے زمین کے انعام پر اسکا دل للچا گیا۔ پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ سے کہا تھا کہ دیکھ قتل تو نظام کر تا ھے مگر پھانسی ساتھ میں تجھے بھی ھو جائے گی۔
ایک رات نظام لوھار اپنی منہ بولی ماں “جیتاں” کی تیمارداری کے لئے سوجھا سنگھ کے گھر آیا۔ سوجھا سنگھ نے تھانہ بھیٹریالہ میں اطلاع دے دی کہ نظام لوھار آج ھمارے ھاں بطور مہمان ٹھہرا ھوا ھے اور کل وہ “کالے کھوہ” واپس چلا جائے گا۔ نظام لوھار جس کمرے میں سویا ھوا تھا دو گھنٹے کے اندر اندر اسے پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور چند سپاھی کمرے کے اوپر چڑھ کر کمرے کی چھت توڑنے میں مصروف ھو گئے۔ نظام لوھار کو پتہ چل گیا۔ اس کی گھوڑی کمرے ھی میں بندھی تھی وہ فوراً سوار ھوا۔ اس نے سر پر لوھے کا تانبیہ اوڑھ لیا تاکہ گولیوں سے بچ سکے مگر اس طرح اسے کچھ نظر نہ آرھا تھا۔ اس نے گھوڑی کو بھگانے کے لئے سیٹی ماری، گھوڑی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی تو لوھے کا تانبیہ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا گیا۔ نظام لوھار زخمی ھونے کے بعد بیہوش ھوکر کمرے کے اندر گر پڑا۔ پھر کیا تھا، پولیس اڑتالیس گھنٹے تک اس کمرے پر گولیاں برساتی رھی، تیسرے دن نظام کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے قصور سول ھسپتال میں لایا گیا۔
سوجھا سنگھ کی ماں کا تاریخی جملہ
۔*.
نظام لوھار کی لاش کو سول ھسپتال قصور میں پہنچانے کے بعد پولیس واپس تھانے آگئی۔ سوجھا سنگھ بھی انعام حاصل کرنے کیلئے تھانے پہنچ گیا۔  جبرو جٹ کو پولیس پہلے ھی گرفتار کر چکی تھی۔ ادھر جب سوجھا سنگھ کی ماں “جیتاں” کو پتہ چلا کہ اس کا منہ بولا بیٹا نظام لوھار اس کے حقیقی بیٹے سوجھا سنگھ کی غداری کی وجہ سے مارا گیا ھے تو “جیتاں” کیلئے یہ ایک مشکل ترین لمحہ تھا۔ ایک طرف اس کے حقیقی غدار بیٹے کی ممتا تھی اور دوسری طرف اس کے منہ بولے دھرمی بیٹے کی شہادت کا غم تھا۔ جیتاں نے اپنے دھرمی بیٹے کے حق میں فیصلہ دے کر پنجاب دھرتی کی ایک عظیم ماں ھونے کا ثبوت دیا۔ جیتاں نے تھانے پہنچ کر سوجھا سنگھ کا سر تلوار کے وار سے تن سے جدا کر دیا اور جبرو جٹ کو گواہ بنا کر وہ تاریخی جملہ کہا جو پنجاب کی تاریخ میں امر ھو گیا۔ جیتاں نے کہا
“سوجھیا توں مردے مردے اک ھور دکھ وی نال لے کے جا، میں تینوں 32 دھاراں نئیں بخشاں گی تے جبرو توں گواہ رئیں میں ایہنوں کیوں ماریا اے”
(سوجھیا تو مرتے مرتے ایک اور دکھ بھی اپنے ساتھ لیتا جا، میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور جبرو تم گواہ رھنا کہ میں نے اسے کیوں قتل کیا)
نظام لوھار کا جنازہ
۔.
اپنے سورما کی لاش دیکھنے اور جنازہ میں شرکت کے لئے دور دراز سے عوام ھزاروں کی تعداد میں قصور پہنچی ۔ اس موقع پر حکومت نے اعلان کر دیا کہ جو شخص نظام لوھار کی نماز جنازہ میں شریک ھوگا اسے دو روپے ادا کرنے ھونگے، اس دور میں دو روپے عوام کے لیے بھاری رقم تھی۔ اس کے باوجود لوگوں نے جوق در جوق نماز جنازہ پڑھی اور نتیجے میں 35000 روپے (پینتیس ہزار روپے) اکٹھے ھوئے جو آج کے پینتیس کروڑ سے بھی زیادہ قیمت رکھتے تھے۔ حاضرین نے نظام لوھار کی قبر پر عقیدت اور احترام کے طور پر اس قدر پھولوں کی چادریں چڑھائیں کہ اسکی قبر پھولوں کا ایک پہاڑ بن گئی۔ پنجاب کے اس جوانمرد کی قبر پنجاب کے شہر قصور کے بڑے قبرستان میں موجود ھے۔
ایسے ہیرو جن کو تاریخ نے چھپا دیا بتائیں گے اپ کو ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہمارے سپیشل  پیج کو ضرور اگے سے اگے شیئر کیجئے.
رپورٹ
سردار اصغر علی مجاہد اف سہتی ریٹائرڈ پولیس افیسر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لاہور
See more
4 days ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ناسا اور چاولوں کی دیگیں!!
ہم میں سے کم و بیش ہر انسان میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی مدد کا جذبہ ہوتا ہے۔ اسکا طریقہ کار یا اظہار کا موقع البتہ مختلف ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم پاکستان میں چونکہ سائنسی ذہن نہیں رکھتے اور محض ایجادات ِ سائنس کے صارف ہیں لہذا ہمیں یہ لگتا ہے کہ سائنس، خلا اور دیگر سیاروں پر تحقیق کرنا ایک بے سود عمل ہے۔ یہ محض پیسے کا زیاں ہے۔ خلاؤں کو تسخیر کر کے یا کائنات کو کھوج کر ہم کیا اُکھاڑ لیں گے۔ ہم یہ ادراک نہیں کر پاتے کہ زمینی مسائل کا حل آسمانوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم چاند پر نہ جاتے تو شاید آج ہمارے کمپوٹرز اور دیگر الیکٹران کا سامان جس میں موبائل فونز وغیرہ شامل ہیں اتنے بہتر نہ ہوتے۔ مثلاً یہ کہ آج جو ہم رابطوں کی دنیا میں ہیں اور نت نئے آن لائن کاروبار اور آن لائن سہولیات استعمال کر رہے ہیں وہ در پردرہ اُنہی ٹیکنالوجیز کی مرہونِ منت ہے جو خلا میں استعمال کے لیے بنائی گئیں۔ ہم نے خلاؤں کے لیے سٹلائٹ بنائے، جن سے آج ہم گوگل میپس پر رستے نہیں بھولتے۔ ہم۔آج بھی انہی سٹلائٹس کے ذریعے موسم کا حال، فصلوں، جنگلات، معدنیات وغیرہ کے سروے کرتے ہیں۔ بہت سی مفید معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ قدرتی آفات جیسے کہ طوفانوں کی بروقت پیش گوئی سے کئی جانیں بچاتے ہیں۔
یہ فہرست طویل ہے، کہنے کا مقصد یہ کہ ماضی میں تسخیرِ کائنات پر لگنے والا پیسے کے ثمرات انسانیت کھا رہی ہے۔ انسانوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو رہا ہے۔  چونکہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آتیں یا ہم اس پر سوچتے نہیں لہذا ہم اپنی پوری نیک نیتی میں یہی سمجھتے ہیں کہ ناسا اگر اس سب پر پیسہ لگانے کی بجائے چاول کی دیگیں بانٹنا شروع کر دے تو انسانی مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک بھوک ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم اس نہج پر ہی نہیں پہنچ سکے کہ بھوک سے آگے کا سوچ سکیں۔ یہ کس قدر بدقسمتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ پچھلی تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جنکا ریوینیو پاکستان کے سالانہ بجٹ سے دوگنا یا کئی گنا ہے جیسے کہ ایپل، گوگل، مائیکروسوفٹ وغیرہ۔۔  یہ کمپنیاں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں۔ یہ کمپنیاں دراصل کیا بیچتی ہیں؟ گندم، گنا یا کپاس؟ نہیں۔۔۔ یہ ٹیکنالوجی بیچتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کہاں سے آتی ہے؟ تحقیق سے، سائنس سے۔ یہ ہر سال تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ جس سے نت نئی ٹیکنالوجییز متعارف ہوتی ہیں جن سے یہ پیسہ بناتی ہیں۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ پیسہ کیسے بنتا ہے؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں؟ نہیں کیونکہ ہم نہ ہی سائنس پڑھتے ہیں، نہ ہی سائنس سمجھتے ہیں۔ ہمارے ذہن جمود کا شکار ہیں۔ لہذا اندھا کیا مانگتا ہے دو آنکھیں کے مصادق ہم بھی محض رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔کہتے ہیں کسی غریب سے کسی نے پوچھا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ وہ بولا چار روٹیاں۔
یہی حال ہمارا ہے، ہماری غربت کی وجہ جہالت ہے اور جہالت کیوجہ غربت۔ ہم غربت کو جہالت مٹا کر ختم کر سکتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال سیکھیں۔ نت نئے کورسز کیجئے، دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ جانئے اور سائنس کو تعصب کے بغیر سمجھئے۔ یاد رکھیں اگر آپ اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینا چاہتے ہیں تو آپکو خود کو اور اپنے بچوں کو سائنس سکھانا ہو گی۔ ورنہ آپکے بچے بھی آپکی طرح بڑے ہو کہ محض یہ خواہش کریں گے کہ کاش ناسا خلاؤں میں تحقیق کی بجائے چاولوں کی دیگیں بانٹتا۔
ڈاکٹر حفیظ الحسن
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
6 days ago
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
UGC - Thear - Log in to Facebook | Facebook
Log in to Facebook | Facebook
Log in to Facebook to start sharing and connecting with your friends, family and people you know.
6 days ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid0kHrdifo8K1WDnRWbifuGzYjQBjB9sKnrFTVTn8trKgYDNwwPrXtmEQJkSM4AM4Tal&id=100008737367350&mibextid=Nif5oz
6 days ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
میری وفات کے بعد...
ایک بار ضرور ضرور پڑھیے۔
بہت عرصہ پہلے دل کو چُھو لینے والی یہ تحریر پڑھی تھی پھر لاکھ ڈھونڈنے پر نا ملی۔۔۔ اب جو ملی تو اس "فن پارے" کو آپ کی نذر کر رہا ہوں۔
ہو سکتا ہے آپ پہلے پڑھ چکے ہوں لیکن حقیقت سے بھرپور یہ تحریر بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔۔۔
ایک نامعلوم ڈائری سے۔
میری وفات کے بعد۔۔۔
موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔
دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔
لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔
رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی.
میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔
بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:
” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“
مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور........... میری زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسے ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جا پہنچا۔
بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی. یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی تھی۔ کراچی سے چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔
بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کر دی گئی۔
شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی لوگ آ گئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر
آ گئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔
پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا۔
یہ کیفیت ختم ہوئی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہو چکے ہیں تمہیں فوت ہوئے ۔
پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی:
” ہم تمہیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں دنیا میں کسی کو نظر نہیں آؤ گے. گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو،
پھر اگر تم نے کہا تو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آ جانا “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور ہاں کر دی۔
پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔
اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ماڈل کی خریدی تھی دھچکا سا لگا۔
گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟
بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں تھیں تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟
کتابیں تھیں نہ الماریاں
رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔
مجھے فارسی کی قیمتی ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا.
داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا. سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی.
میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا؟
اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے سُوت سے بُنے ہوئے چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہو گئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟
ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟
میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں؟
مگر... میں بول سکتا تھا نہ وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو اس طویل گفتگو سے میں سمجھا یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے بضد تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی.
میری بیوی کو میری یہ نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔
گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہو گی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔
یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔
میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے خریدی تھی. اچھا... تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے.
میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھتا رہا۔
ایک ایک بیٹے بیٹی کے گھر جا کر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا وہ بھی سرسری سا۔
ہاں...
زینب، میری نواسی اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی:
” اماں... یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھےنا جب میں چھوٹی سی تھی اسے پھینکنا نہیں“
ماں نے جواب میں کہا:
” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کردینا“
میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔
اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں بھی الماری  سے ہٹا دی تھیں۔
ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔
میری قبر کا برا حال تھا. گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زرہ بھر بھی نہیں.
بیوی یاد کر لیتی تھی تاہم بچے پوتے نواسے پوتیاں سب مجھے بھول چکے تھے ۔
ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔
دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر. پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی تھیں اور آئے جا رہی تھیں.
ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آ چکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجئے،
میں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں بھی ویلکم نہ کہا جاتا. بچے پریشان ہو جاتے ، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں میری گنجائش کہیں نہ تھی.
ہو سکتا تھا کہ بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آ کر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مکان بک چکا،
میں تنہا تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے.
دوست تھوڑے بہت باقی بچے تھے۔
وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل طے کر رہے تھے. میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔
جدید بستی میں پرانے مقبرے کی طرح.
میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں.
فرشتہ مسکرایا۔ اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا “
-------------
ہمارے سبھی کے دماغوں میں بھی یہی سوچ ہے کہ یہ گھر، یہ کاروبار، یہ نوکری، یہ دنیا کی، گھر کی، بچوں کی ضرورتیں اور سارے کام کاج میری وجہ سے ہی جاری ہیں.اگر میں نہ رہا تو دنیا کی گردش رک جائے گی۔۔۔
مگر صرف ایک پل کو صرف ایک پل کو سوچئے ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ دنیا تو ہمارے سے پہلے جانے والوں کے بغیر بھی چل رہی ہے اور ہمارے جانے کے بعد بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔
اک خیال ہے، سراب ہے، وہم ہے، گماں ہے اور بس کچھ بھی نہیں۔۔۔کچھ بھی نہیں۔
سلامت اور آباد رہئے۔
See more
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 week ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ویران گھر۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں جب چھٹیوں میں گاؤں جایا کرتے تھے تو ایک مشغلہ دادا ابو کے ساتھ گاؤں کی سیر کےلئے جانا تھا۔اس دوران کئ بزرگوں کو دیکھا جو اپنے گھروں کے باہر لکڑی کے دروازوں  سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے تھے جیسے کسی کی راہ تکتے ہوں۔بچپن کے خوشی بھرے ماحول میں بھی وہ منظر ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کوئ اداس پینٹنگ۔۔۔۔۔
زمانوں بعد ملازمت کے سلسلے میں جہلم اور دینہ شہر دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔دینہ کی تنگ تنگ گلیوں میں انسان حیرت انگیز تجربے سے گزرتا ہے جب اچانک کوئ تنگ موڑ مڑتے ہی خوابوں جیسا کوئ محل آجاتا ہے۔حیرت میں گرفتار انسان اطلاعی گھنٹی بجائے تو اندر سےکوئ خوابوں کا شہزادہ یا شہزادی برآمد نہیں ہوتے بلکہ بوڑھے ماں باپ یا خالی گھر  میں موجود چوکیدار  سامنے آتا ہے۔بڑے بڑے شاندار گھر ایک طرف تو انسان کے اپنے علاقے میں آسودگی سے بسنے کی تمنا کو ظاہر کرتے ہیں اوران گھروں کی ویرانی ہجرت کے درد کو بیان کرتی ہے۔یہ وہ گھر ہیں جو باہر کی آمدنی سے بنے ہیں اور  واپسی کے خواب کو زندہ رکھتے ہیں۔
آجکل ہم ایک اور صورتحال سے دو چار ہیں۔مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس گھروں میں لائق اور قابل بیٹے ،چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے ملکوں میں سیٹل ہورہے ہیں جبکہ ریٹائرمنٹ پر  ملنے والی رقم سے   بنائے ہوئے خوبصورت گھروں میں  معاشی طور پر آسودہ والدین پرندوں اور پالتو جانوروں سے دل بہلاتے ہیں۔
وہ جو تعلیم حاصل کرنے گئے تھے۔انکی واپسی اب آسان نہیں رہی۔فون ،ویڈیو کال پر جدائی کے افسانے بیان نہیں ہوسکتے۔لیکن پھر بھی رابطے کی صورت رہتی ہے۔
معاشرے میں ناانصافی کا چلن عام ہوجائے تو نئ نسل سفر کے اسباب تیار کرتی ہے۔اڑنے کو پر لگ جائیں تو گھونسلے خالی ہونے لگتے ہیں۔جھولا جھلانے والے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے رہتے ہیں ۔لیکن مکینوں سے خالی گھر بھی ماں باپ کی  اداسی اور اولاد کی مجبوری کی کہانی سنانے سے باز نہیں رہتے۔
عمارہ مرتضی
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
الصلاة خير  من النوم
"مرض لگنے کے اوقات"
(انتہائی حیران کن معلومات پر مشتمل تحریر)
فرمانے لگے:  ماہرِ امراضِ دل  ہونے کے ناطے مجھے دنیا بھر سے طبی اجتماعات اور محاضرات میں شرکت کی دعوت ملتی ہے۔ مگر یہ والا محاضرہ (سیمینار) مجھے دعوت نہ ملنے کے باوجود بھی شمولیت پر اکسا رہا تھا۔ اور  اس شدت سے شرکت کی خواہش کا سبب اس سیمینار کا  اچھوتا عنوان تھا جس کے مطابق امراض لگنے کا   بھی کوئی وقت ہوتا ہے جیسے
برین ہیمبرج کتنے بجے ہوگا،
شوگر کا مرض دن کے کتنے بجے لگے گا
یا
دل کا دورہ کس وقت پڑ سکتا ہے
یا
دماغ کی شریانیں پھٹنے کا کونسا وقت ہوتا ہے؟
کیا کسی مرض کے لگنے کا ایک وقت بھی ہوتا ہے؟ اور پھر  یہ سب کچھ جاننے کیلیئے   میرا شوق اور تجسس جیت گیا،   میں نے ویزہ لگوایا اور ٹکٹ کٹوا کر  جرمنی کے شہر  (Düsseldorf) میں ہو رہے اس مناسبت کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔
سیمینار کے دوران میری کوشش رہی کہ کسی بھی موضوع پر ہو رہی گفتگو میں اپنی شمولیت لازمی بناؤں مگر  امراض دل سے متعلق کوئی بھی نشست چوکنے نہ پائے۔
پہلے دن  کی نشست میں ایک جرمن مقرر جن کا مذہب کوئی بھی ہو مگر مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی اس کا  ہمارے دین اسلام سے کوئی تعلق تھا،   تقریر کر رہے تھے۔  آپ کے مطابق :
دنیا بھر سے مریضوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے بعد، طبی علوم کے علماء نے یہ جانا ہے کہ  دل کے منجملہ اعراض اور مشاکل جیسے دل کی شریانوں کا بند ہوجانا،   یا دماغی امراض جیسے دماغ کو جاتی شریانوں کا بند ہوجانا   یا پھٹ جانا صبح کے آٹھ بجے واقع ہوتے ہیں۔
کیا آپ اس بیان کی تفسیر جاننا چاہتے ہیں؟
میں بتاتا ہوں: جب ہم رات کو سوتے ہیں تو ہمارے  جسم میں خون کا دوران سست پڑ جاتا ہے۔ اگر شریانیں پہلے سے ہی جامد مواد سے اٹی ہوئی ہوں تو خون کے  بہاؤ میں رکاوٹیں نیند کے بعد بڑھتی رہتی ہیں، خون  شریانوں میں بہتے ہوئے یا خاص طور پر ان اٹی ہوئی جگہوں سے  گزرتے ہوئے لوتھڑوں (Clots - coagulate)کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے جسمانی نظام میں ایسا طریقہ رکھ چھوڑا ہے  (کیمیاوی عمل بنا دیا ہے)  جو دباؤ کی حالت میں ان شریانوں میں اکڑاؤ  پیدا کر کے  انہیں  پھٹنے سے بچاتا ہے، لیکن شریانوں کا یہ اکڑاؤ اور اُس میں جم جانے والے خون کے لوتھڑوں کی وجہ سے دل کا دوران خون رُک جاتا ہے جو دل کے دورے  یا دماغی شریانوں کے پھٹنے کا سبب بن جاتا ہے۔
جرمن مقرر جس کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بتا رہا تھا کہ اس عارضے سے بس وہی بچ سکتے ہیں جو صبح سویرے  جاگ جائیں اور  اگر نیند کی دوبارہ حاجت محسوس ہو رہی ہو تو گھنٹہ بھر جاگنے کے بعد سونا چاہیں تو پھر سے سو جائیں۔ اس سے ہمارے  جسم سے بنا ہو وہ  میکینزم جو شریانوں کو اکڑا کر پھٹنے سے بچا رہا ہے وہ میکینزم بند ہو جائے گا اور طبیعی سلسلے پھر سے بحال ہو جائیں گے۔
مقرر  بولتا جا رہا تھا اور میرا دماغ بس ایک ہی بات کو سوچ رہا تھا کہ یہ مقرر  شاید  مجھے " نماز نیند سے بہتر ہے – نماز نیند سے بہتر ہے" کو سمجھانا چاہ رہا ہے مگر اس کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں۔
دیکھیئے: اللہ  تبارک و تعالٰی ہماری صبح کی میٹھی نیند کو اور اس میٹھی نیند کیلئے ہماری خواہش کو خوب سمجھتے ہیں، کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اللہ پاک نے ہمیں صبح سویرے جگا کر کسی عذاب میں ڈالا ہے۔ سچ جانئے کہ اللہ پاک  نے ہمیں اس وقت جگا کر ہماری زندگی کو بچایا ہے۔
میرے کلینک پر کئی مسیحی بھائی بھی علاج کیلئے آتے ہیں، اگر مجھے ادراک ہو جائے کہ یہ آدمی کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہونے والا ہے تو اُسے کہتا ہوں  بھائی صبح سویرے چار یا پانچ بجے جاگ کر اپنے گھر کا ایک چکر لگایا کرو، پانی وغیرہ پینے کی حاجت ہو تو پانی پی لیا کرو، دیگر کسی حوائج  سے فراغت کی ضرورت ہو تو اُس سے فارغ ہو لیا کرو اور دوبارہ سونے کی حاجت ہو تو پھر سو جایا کرو مگر اپنے آپ پر اُس وقت جاگنا لازمی کر لو۔۔
بھائیو: سائنس نے ثابت کیا ہے اور علمی مباحثوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صبح نماز کیلئے جاگنے سے جسم کے اندر بن رہے کیمیاوی تغیرات بند ہو جاتے ہیں، اونچا ہو رہا خون کا دباؤ راہ راست پر آ جاتا ہے، خون کے جامد اجزاء پھر سے تحلیل ہو کر بہاؤ کے عمل کو آسان بنا دیتے ہیں  اور ہمیں بہت سارے  متوقع امراض سے  نجات مل جاتی ہے
فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۞
ترجمہ:
(اے انسانوں اور جنات) اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
سبحان اللہ العظیم
See more
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو
محسوس کیا تھا کہ اِدھر سائے ہیں یارو
رہنے بھی دو، کیا پوچھ کے زخموں کا کرو گے؟
یہ  زخم اگر  تم نے نہیں  کھائے ہیں  یارو
چھیڑو کوئی بات ایسی کہ احساس کو بدلے
ہم  آج ذرا  گھر  سے  نکل  آئے  ہیں  یارو
کیا سوچتے ہو تازہ لہو دیکھ کے سر میں؟
اک دوست  نما سنگ سے  ٹکرائے ہیں یارو
ایسے بھی نہ چُپ ہو کہ پشیمان ہو جیسے
کچھ تم نے یہ صدمے نہیں پہنچائے ہیں یارو
اندازہ تمہیں ہو گا کہ بات ایسی ہی کچھ ہے
ورنہ کبھی ہم ایسے بھی گھبرائے ہیں یارو؟
وہ قصّے جو سن لیتے تھے ہم از رہِ اخلاق
اب  اپنے یہاں  وقت نے  دہرائے  ہیں  یارو
اب تم کو سناتے ہیں کہ احساس کی تہہ سے
اک  نغمہ بہت  ڈوب کے  ہم لائے ہیں  یارو
جاتے ہیں کہ گزرا ہے یہ دن جن کی خزاں میں
آنکھوں  میں بہار اُن کے لئے لائے ہیں  یارو
(محشرؔ بدایونی)
See more
1 week ago
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو
محسوس کیا تھا کہ اِدھر سائے ہیں یارو
رہنے بھی دو، کیا پوچھ کے زخموں کا کرو گے؟
یہ  زخم اگر  تم نے نہیں  کھائے ہیں  یارو
چھیڑو کوئی بات ایسی کہ احساس کو بدلے
ہم  آج ذرا  گھر  سے  نکل  آئے  ہیں  یارو
کیا سوچتے ہو تازہ لہو دیکھ کے سر میں؟
اک دوست  نما سنگ سے  ٹکرائے ہیں یارو
ایسے بھی نہ چُپ ہو کہ پشیمان ہو جیسے
کچھ تم نے یہ صدمے نہیں پہنچائے ہیں یارو
اندازہ تمہیں ہو گا کہ بات ایسی ہی کچھ ہے
ورنہ کبھی ہم ایسے بھی گھبرائے ہیں یارو؟
وہ قصّے جو سن لیتے تھے ہم از رہِ اخلاق
اب  اپنے یہاں  وقت نے  دہرائے  ہیں  یارو
اب تم کو سناتے ہیں کہ احساس کی تہہ سے
اک  نغمہ بہت  ڈوب کے  ہم لائے ہیں  یارو
جاتے ہیں کہ گزرا ہے یہ دن جن کی خزاں میں
آنکھوں  میں بہار اُن کے لئے لائے ہیں  یارو
(محشرؔ بدایونی)
See more
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
یمنی مصنف، رائد الجحافی نے ابن خلدون کی تحریروں کے کچھ اقتباسات ایک مضمون میں نقل کیے تھے جسے اس نے "ابن خلدون جاسوس" کا نام دیا تھا.
آج سے سات سو سال قبل لکھی گئی تحریر مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے جسے دنیا میں سماجیات کے علمبردار ابن خلدون کے شاہکاروں میں سے ایک مانا جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا:
مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں،  اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے ۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔
بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔
بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے "ہجرت"، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں!
رائد الجحافی کہتے ہیں کہ ابن خلدون خدا آپ پر رحم کرے! کیا آپ ہمارے مستقبل کی جاسوسی کر رہے تھے؟  آپ سات صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے جو ہم آج تک دیکھنے سے قاصر ہیں!
مترجم :توقیر بُھملہ
عزیزم چوہدری محمد اشفاق کی وال سے
See more
1 week ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
-
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔ ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے!
-
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
-
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں، ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے، ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی، وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہی اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
-
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا، ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان سٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔ گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ!
-
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔ گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا!
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
-
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی، براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
-
آئیں، ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں، گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے، ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، ہم ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
-
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
-
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
-
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، ’عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔‘
-
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں، سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
-
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
-
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ ’فورٹی رولز آف لَو‘ انگریزی میں آئی تو چومتے نہیں تھکتے۔ الف لیلیٰ، کلیلہ و دمنہ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، جرمن سے گورے کے پاس آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔
جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔ پاؤلو کوہلو اسی کا ٹنکچر بنا کے دے گا تو بگ واؤ کرتے ہوئے آنکھوں سے لگا لیں گے۔ متنبی کون تھا، آملی کیا کر گئے، شمس تبریز کا دیوان کیا کہتا ہے، اغانی میں کیا قصے ہیں، ہماری جانے بلا!
-
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے، ہمارے چاند روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
-
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نہیں آئی۔
حسنین جمال
See more
1 week ago
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
16 ستمبر 1936
یوم پیدائش ملعون جہیمان عتیبی
جہیمان عتیبی جس کا مکمل نام جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي  ستمبر 1936ء  سعودی عرب کے صوبہ القصيم میں پیدا ہوا تھا۔
جہیمان ایک مذہبی کارکن اور عسکریت پسند تھا اس کی قیادت میں 400 سے 500 مردوں کے ایک منظم گروپ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
حج ختم ہوئے ابھی صرف 20 دن ہی گزرے تھے، نئے اسلامی سال بلکہ نئی اسلامی صدی یعنی 1400 ہجری کا پہلا دن تھا۔ گویا یہ یکم محرم الحرام سن 1400 ہجری بمطابق 20 نومبر 1979، منگل کی صبح تھی جب اسلامی تاریخ کا ایک ایسا تلخ اور دلوں کو رلا دینے والا واقعہ، مسجدالحرام کی محترم اور مبارک دیواروں کے بیچ، جانوں سے زیادہ عزیز کعبہ مشرفہ کے اطراف میں وقوع پزیر ہوا جس کے زخم آج تک عشاق حرم کے دلوں میں تازہ ہیں۔
نئی صدی کی پہلی صبح جب امام حرم کعبہ شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا، ان میں سے کچھ لاؤڈ سپیکر پر قابض ہو گئے۔ کچھ مسجد الحرام کے میناروں پر چڑھ گئے اور کچھ مسلح افراد نے مسجد کے دروازوں کا کنٹرول سنبھال لیا، کیونکہ حج ختم ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے، اس لئے دوسرے ملکوں کے حاجیوں کی ابھی کثیر تعداد مکّہ مکرمہ میں ہی مقیم تھی، جس کی وجہ سے جب یہ دلسوز حملہ امت مسلمہ کے دلوں پر کیا گیا تو اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔
ان حملہ آوروں خوارج کا سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” تھا اور اس کا تعلق سعودی عرب کے علاقے ”نجد” کے ایک طاقتور گھرانے سے تھا۔ اس کا دست راست 27 سالہ "محمد بن عبد اللہ قحطانی" تھا۔ جس نے مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی چار سالہ تعلیم حاصل کی تھی، کہا جاتا ہے کہ حملہ آور خوارج کے سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” نے اسے اپنا بہنوئی بنا رکھا تھا۔
ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر تابوتوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار حرم پاک کے تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔ اسلحے کے ساتھ ساتھ خشک کھجوروں اور دیگر اشیا خورد و نوش کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ تہہ خانوں میں چھپا دیا گیا تھا۔ یہ سب کام کئی دنوں میں مکمل ہوا، مگر سازش گہری تھی، اس لئے کسی کو اس کا شک نہ ہوا اور کسی کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ اس متبرک مقام پر کوئی گروہ اتنی ناپاک سازش کا تصور بھی کر سکتا ہے۔
دلوں کو چیر دینے والی اس صبح جب امام حرم کعبہ شیخ عبد اللہ بن سبیل کو ان حملہ آوروں نے اپنے قابو میں کیا تو فورا ہی انکے ناپاک عزائم کے مطابق کاروائی پورے حرم محترم میں شروع ہو گئی۔ اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دیئے گئے۔ حرم میں موجود تمام نمازی یرغمال بنا لئے گئے۔ جو اپنی تھوڑی بہت کوشش سے حرم سے نکل گئے، بس وہی نکل سکے۔ باقی سب معصوم حاجی اور نمازی جن میں خواتین، بوڑھے اور بچے بھی تھے محصور ہو کر رہ گئے۔ ایک حملہ آور نے عربی میں حرم پاک کے اسی مائیک سے جس پر چند لمحوں پہلے نماز فجر کی تلاوت ہو رہی تھی، اعلانات کرنا شروع کر دیئے کہ ”مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔”
نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی نے بھی مائیک پر آ کر اعلان کیا کہ
”میں نئی صدی کا مہدی ہوں، میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کریں گے۔ ”
اس کے بعد اس گمراہ ٹولے نے مسجدالحرام کے مقام ابراہیم جیسے مقدس گوشے کے پاس، کعبہ مشرفہ کے عین سامنے جا کر گولیوں، سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت کروانی شروع کر دی ۔
محاصرے کے فوراً بعد وزارت داخلہ کے تقریباً ایک سو (100) اہلکاروں نے دوبارہ حرم مکی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن مرتدین حملہ آوروں نے ان فوجیوں کی کوشش ناکام بنا دی۔ اس کوشش میں بہت سا جانی نقصان بھی ہوا۔ اس کے بعد سعودی فوج اور سعودی نیشنل گارڈ نے بھی حرم پاک کو ناپاک لوگوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی، جو زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ شام ہوتے ہوتے پورے مکّہ مکرمہ کو رہاشیوں سے خالی کرا لیا گیا۔
سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32 علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فتوی دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔
بعد ازیں سعودی آرمی اور فرنچ آرمی کا خوارج سے مقابلہ ہوا جن کے پاس سنائپرز اور شارپ شوٹرز تھے اور انہوں نے مسجدالحرام میں جگہ جگہ پوزیشنز سنبھال لیں۔ دو دن تک مقابلہ ہوا لیکن سعودی فوجی ہلاکتوں کے باوجود سعودی اور فرنچ آرمی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ مسجدالحرام دو دنوں سے اذانوں اور نمازوں کی تکبیرات کی گونج سے محروم تھی۔ گویا نہ اذانیں دی جارہی تھیں نہ نمازوں کا باقاعدہ اہتمام ہو پا رہا تھا، نہ طواف ممکن تھا۔
بالآخر الحمد للہ ایک بار پھر پاکستان کی پاک فوج کو اسلام کی فوج ثابت ہونے کے لئے کارروائی کرنے کا موقع دیا گیا، جس نے نہایت کم وقت میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی. پاکستانی کمانڈوز نے دہشت گردوں کے سنائپرز سے نمٹنے کے لئے ایک عجیب ترکیب استعمال کی ۔ پورے مسجدالحرام میں پانی چھوڑا گیا اور پوری مسجد کی گیلی زمین میں کرنٹ دوڑانے کی دھمکی دی گئی جس کی وجہ سے خوارج کے شارپ شوٹرز اور سنائپرز کچھ دیر کے لئے غیر مؤثر ہو گئے۔ پاک فوج نے غیر معمولی سرعت سے تمام خوارج پر قابو پا لیا۔ بغیر کسی جانی نقصان کے سب حملہ آوروں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ تمام یرغمالیوں کو رہائی دلائی گئی۔ اس طرح اللہ تعالی نے یہ عظیم سعادت پاکستان کو عطا کی۔ اللہ ہمارے ان روحانی مراکز مکہ و مدینہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور انہیں حاسدوں کے شر سے محفوظ و مامون رکھے. (آمین)
خوارج کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ گویا سترہ دن حرم پاک میں اذانیں نمازیں اور طواف ممکن نہ ہو سکا۔
اس لڑائی میں 75 باغی مارے گئے، جس میں نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی” بھی شامل تھا،
خوارج کے علاوہ نیشنل گارڈز کے 60 فوجی، چار پاکستانیوں سمیت 26 حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ خوارج کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا، جس میں سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” بھی شامل تھا۔
سزائے موت پانے والے مرتدین میں سے 41 سعودی عرب، 10 مصر، 6 جنوبی یمن، اور 3 کویت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ عراق، سوڈان اور شمالی یمن کا بھی ایک ایک مرتد شامل تھا۔ کیس کے بعد ان تمام ملزموں کے سعودی قوانین کے تحت سر قلم کر دیئے گئے۔
09 جنوری 1980 کو  جہیمان عتیبی کو سزائے موت دیتے ہوئے سر قلم کر دیا گیا۔
الوکیل
See more
1 week ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
دو دن میں 50,000 مسلمانوں کا قتل !!!
‏اٹھایئس سال قبل اگست 1995 کاواقعہ ھے
حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔‏سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔
شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے ‏زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔
ایک طرف سے آواز آئی فائر۔
سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں
‏برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ ‏کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔
ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔
اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے۔ ‏جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔
شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ ‏نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔
لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔‏انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے ‏پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔
یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا ‏دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں
‏نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے ‏بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔
اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔
اگست  1995 سے اگست 2023 تک اٹھائیس سال گذر گئے۔
‏آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔
جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے
‏پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔
گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی ‏مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔
غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی ‏واقعہ ہوا بھی تھا؟
پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو
‏ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں ضرور بھیجیں جس سے ھمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ھوتا ھو درخواست ہے کہ دس دوستوں کو بھیج دیں
آخری بات
اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہے
منقول
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 week ago
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 week ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
السلام علیکم
اے رب ذوالجلال ہم سب گناہ گاروں کو بخش دے، ہماری توبہ قبول فرما۔ ہمیں رزق حلال، مقام عبدیت،عشق رسول عطاء فرما ہم سب پر اپنا کرم  فرما. یا رحیم ہمیں کفر،شرک، شیطان کے شر اور حاسدوں کے حسد سے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھ.یا ربالعالمین ہمارے تمام مرحومین کی مغفرت فرمااور ہم سب کو اپنے ماں باپ کے لئے صدقہ جاریہ بنا دے۔آمین سدا بخیر زندگی
See more
1 week ago
1 React 2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://fb.watch/n86fb21e3d/?mibextid=Nif5oz
1 week ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid0TmkctnPX1RW3M5zakFSBijpVJz6CLFTC9oDti1fYwueo86xvMXci2pHFJWMVQCZTl&id=100074359362439&mibextid=Nif5oz
1 week ago
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
12 سال میں تیار ہونے والی شدّاد کی جنت *
شدّاد کی جس جنت کا قران مجید میں ذکر ہے وہ امریکن خلائی شٹل چیلنجر نے دریافت کرلی۔
شداد کی کسمپرسی اور بے چارگی پر ملک الموت کو دو مرتبہ ترس آیا۔
قصہ کہانی سمجھی جانے والی اس جنت کے کھنڈرات آ ج دریافت ہو چکے ہیں۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی کہ میری امّت کا ایک شخص اپنے اونٹ کی تلاش میں اس شہر تک پہنچے گا۔
کچھ لوگوں کو آج بھی رات کے وقت اس جگہ سے روشنی پھوٹتی نظر آچکی ہے۔
آج آپ بھی اس (ارم) کے کھنڈرات کا مشاھدہ کر سکتے ہیں۔
ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا:
روح قبض کرتے ہوئے تمہیں کبھی کسی پر ترس بھی آیا۔۔۔
ملک الموت نے عرض کیا:
جی ہاں ۔۔۔
دو  بار مجھے بڑا ترس آیا،
پہلی بار اس وقت جب سمندر میں ایک ماں اپنے شیرخوار بچے کے ہمراہ سفر کر رہی تھی، سمندر میں طوفان آیا، کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، وہ ماں ایک تختے پر اپنے نوزائیدہ بچے کو سینے سے لگائے سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی،
اس وقت مجھے آپ کا حکم ملا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے۔
چنانچہ میں نے اس عورت کی روح قبض کر لی اور وہ بچہ اس تختے پر اکیلا رہ گیا پھر وہ تختہ ایک جزیرے پر جا لگا اور دوسری مرتبہ مجھے شدّاد کی روح قبض کرتے ہوئے بڑا ترس آیا۔
وہ تیرا دشمن تھا مگر اس نے بڑی محنت سے جنّت تعمیر کرائی تھی اور تو نے اسے دیکھنے کا موقع تک نہ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے ملک الموت۔۔۔
تو نے دونوں مرتبہ ایک ہی شخص پر ترس کھایا تھا،
تختے پر جس بچے کو تو نے دیکھا تھا ہم نے اس کی پرورش کی، اسے عزّت دی، اسے اقتدار دیا اور وہ بدبخت ہمارا منکر بن بیٹھا اور ہماری جنّت کے مقابلے میں اپنی جنّت تیار کرنے لگا۔
در حقیقت شدّاد ہی وہ شیرخوار بچہ تھا جس کی ماں کی روح تو نے قبض کی تھی۔
خدا کے انکار کا یہ نتیجہ تو دنیا میں ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے۔‎اس قوم کے تذکرے کو کہانی سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس صدی میں اس شہر کے آثار بر آمد ہوئے ہیں۔
جو الربع الخالی کے اس حصّے میں ہے جو آج کل عمان میں شامل ہے۔
اس کے آثار 1984ء میں خلائی شٹل چیلینجر کی مدد سے دریافت کئے گئے۔
یہ شہر 3000 سال قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک اونٹوں کے اس کاروانی راستے پر آباد تھا جہاں سے ھند، عرب اور یورپ تک تجارت کی جاتی تھی اور یہ اپنے زمانے کا ایک تجارتی مرکز تھا۔
روایت ہے کہ یہ شہر ایک عظیم طوفان سے تباہ ہوا۔
اسے ایک ہزار ستونوں کا شہر کہا جاتا ہے۔
اس کے ستون بہت اونچے تھے۔(‎ارم) نام لیا جاتا ہے
شدّاد کی جنت کا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے
إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ
ارم کے ستونوں والے
ان لوگوں کا تعلق قومِ عاد سے تھا اور وہ اِرم نام کی بستی کے رہنے والے تھے۔
وہ بستی بڑے بڑے ستونوں والی تھی۔
عماد جمع ہے عمد کی اور عمد کے معنی ستون کے ہیں۔
عاد کے نام سے دو قومیں گزری ہیں۔
ایک کو عادِ قدیمہ یا عادِ اِرم کہتے ہیں۔
یہ عاد بن عوض بن اِرم بن سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے تھے۔
ان کے دادا کی طرف منسوب کرکے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتا ہے۔
اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے متصل تھا۔
ان کی طرف حضرت ہُودؑ مبعوث کئے گئے تھے لیکن قومِ عاد کی بد اعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کر دیا گیا تو حضرت ہُودؑ حضرِ موت کی طرف مراجعت کر گئے۔
ان کی رہائش احقاف کے علاقے میں تھے۔
حضرت ہوُدؑ کی وفات یہیں پر ہوئی۔
احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اس قوم کو غیر معمولی قد و قامت اور قوّت عطا فرمائی تھی۔
ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔
طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں،
ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔
یہ لوگ طاقت و قوّت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔
دو بادشاہ خاص طور پر ان میں بہت جاہ و جلال والے ہوئے۔
وہ دونوں بھائی تھے۔
ایک کا نام شدید تھا جو بڑا تھا۔
دوسرے کا نام شدّاد تھا جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔
یہ دونوں وسیع علاقے پر قابض ہوگئے اور بے شمار لشکر و خزانے اُنھوں نے جمع کر لئے تھے۔
عادِ اِرم کا قصّہ
شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔
دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔
اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔
اس تسلّط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کر دیا تھا  کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کر دیا۔
اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیاء کے علوم کے وارث تھے،
اسے سمجھایا اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا:
جو حکومت و دولت اور عزّت اس کو اب حاصل ہے،
اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا۔۔۔
جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لئے کرتا ہے یا دولت کے لئے کرتا ہے۔
مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں۔۔۔
حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود ۔
سمجھانے والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت و دولت ایک فانی چیز ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں اُخروی نجات اور جنت کا حصول ہے جو دنیا کی ہر دولت سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے۔
اس نے پوچھا۔۔۔
یہ جنت کیسی ہوتی ہے۔۔۔
اس کی تعریف اور خوبی بتاؤ۔
نصیحت کرنے والوں نے جنت کی وہ صفات جو انبیائے کرام صلوتہ والسلام  کی تعلیمات کے ذریعے ان کو معلوم ہوئی تھیں،
اس کے سامنے بیان کیں تو اس نے کہا:
مجھے اس جنت کی ضرورت نہیں ایسی جنت تو میں خود دنیا ہی میں بنا سکتا ہوں۔
شدّاد کی جنت
چنانچہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔
ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرّر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔
اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔
علاوہ ازیں اپنی قلمرو میں سب حکمرانوں کو یہ حکم  دیا کہ سونے چاندی کی کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجیں اور کوہِ عدن کے متصل ایک مربع شہر (جنت) جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو، بنانے کا حکم دیا۔
اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔
پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروا دیا۔
جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔
ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرّر کی گئی۔
جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔
یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔
اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کئے گئے۔
ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون پر  جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔
پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔
ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔
ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔
نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔
ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنوا کر ان پر ٹانک دیے گئے۔
شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور  عنبر و گلاب سے صیقل کیا گیا۔
یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لئے بیٹھتے تھے۔
جب تعمیر مکمّل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔
پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کر دیا گیا۔
بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کر دیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لئے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچا کریں۔
بارہ سال کی مدّت میں یہ شہر جب اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوگیا تو تمام امرا و ارکانِ دولت کو حکم دیا کہ سب اسی میں آباد ہو جائیں۔
پھر شدّاد خود، اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ انتہائی تکبّر اور غرور کے ساتھ اس شہر کی طرف روانہ ہوا۔
بعض علما و مصلحین کو بھی ساتھ لیا اور راستے بھر اُن سے ٹھٹھّا  بازی و تمسخر کرتے ہوئے ان سے کہتا رہا:
" ایسی جنت کے لئے تم مجھے کسی اور کے آگے جھکنے اور ذلیل ہونے کا کہہ رہے تھے۔۔۔
میری قدرت و دولت تم نے دیکھ لی۔۔۔
جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زر و جواہر نچھاور کرنے لگے۔
اسی نازو ادا سے چلتے ہوئے جب شہر کے دروازے پر پہنچا تو روایت ہے کہ ابھی اس نے گھوڑے کی رکاب سے ایک پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھا کہ اس نے وہاں پہلے سے ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔
اس نے پوچھا:
تُو کون ہے۔۔۔
اس نے کہا:
میں ملک الموت ہوں۔
پوچھا:
کیوں آئے ہو۔۔۔
اس نے کہا:
تیری جان لینے۔
شداد نے کہا:
مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔
جواب ملا:
مجھ کو حکم نہیں۔
کہا:
چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔ جواب ملا:
اس کی بھی اجازت نہیں۔
چنانچہ ابھی شدّاد کا ایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی۔
پھر حضرت جبرائیل ؑ نے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت تمام شہر مع اپنی عالی شان سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے:
ترجمہ:
وہ جو اِرم تھے بڑے ستونوں والے اور شہروں سے اس کے مانند کوئی شہر شان دار نہ تھا۔
(پارہ 30۔ سورۃ فجر۔ # 7،8)📖
شداد اور اس کی جنت کا انجام
معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہو جانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا گیا۔
مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظر آجاتی ہے۔
یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔
حضرت عبداللہ بن قلابہ جو صحابی ہیں،
اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔
اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا،
آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔
جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔
جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔
یہ میں خواب دیکھ رہا ہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے۔۔۔
اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔
اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔
آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس چل دیے۔
وہاں سے وہ سیدھے اُس وقت کے دارالخلافہ دمشق میں پہنچے۔
حضرت امیرمعاویہؓ وہاں موجود تھے۔
وہاں جو کچھ ماجرا ان کے ساتھ پیش آیا تھا، انھوں نے بیان کیا۔
حضرت امیر معاویہؓ نے ان سے پوچھا، وہ شہر آپ نے حالتِ بیداری میں دیکھا تھا کہ خواب میں۔۔
حضرت عبداللہ نے بتایا کہ بالکل بیداری میں دیکھا تھا۔
پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔
ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔
حضرت امیر معاویہؓ یہ ماجرا سننے کے بعد نہایت حیران ہوئے۔
پھر اہلِ علم حضرات سے اس بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں۔۔۔
علما نے بتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔
اس آیت میں "اِرم ذات العماد" یہی شہر ہے۔
مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔
علماء نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا۔
اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے۔
وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔
جب حضرت امیر معاویہؓ نے یہ ساری نشانیاں حضرت عبداللہ بن قلابہ میں دیکھیں تو فرمایا:
واللہ یہ وہی شخص ہے۔
(بحوالہ:تذکرۃ الانبیا- تحقیق شاہ عبدالعزیز دہلوی)📖
*ارم کے کھنڈرات کہاں واقع ہیں۔۔۔
انگریزی میں یہ شہر یا کھنڈرات Atlantis of the sands کے نام سے مشہور ہے۔
عرصہ دراز تک یہ شہر اور اس کے کھنڈرات اپنے خزانے کی کہانیوں کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔
ہر دور میں مہم جو اس کی تلاش میں رہے۔
دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سن 1990ء میں جب امریکن ادارے ناسا NASA کے خلائی شٹل چیلنجر کی مدد سے اس شہر کے کھنڈرات کو عمان  کے صوبے ظفار Dhofar میں دریافت کیا گیا اور کھدائی شروع ہوئی تو ایک ھشت پہلو قلعے کی دیواریں اور دیگر تعمیرات کے کھنڈرات بہترین حالت میں دریافت ہوئے لیکن ان کھنڈرات اور دیواروں کا ایک بڑا حصّہ زمین میں نمودار ہونے والے ایک بڑے گڑھے میں گر کر دفن ہوگیا۔
اب ان کھنڈرات کا کچھ ہی حصّہ باقی ہے جنہیں آپ عمان کے صوبہ ظفار Dhofar
میں اٹلانٹس آف سینڈز یا اوبر کے نام سے دیکھ سکتے ہیں۔
اب واللہ عالم
یہ جگہ اور گڑھے میں دفن ارم اپنے اندر کتنے اسرار سموئے ہوئے ہے۔
( اس مضمون کی تیاری میں اردو ڈائجسٹ، وکیپیڈیا اور دیگر کچھ بلاگز و ویب سائٹس سے مدد لی گئ ہے۔ )
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 weeks ago
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 weeks ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://fb.watch/n5c-XyJSU-/?mibextid=HSR2mg
2 weeks ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
(فتح ثمرقند اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے…)
حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمة
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کے حکمران “عمر بن عبد العزیز” سے ملنا چاہتا تھا۔
اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
“ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں. مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا اور ہم پر راتوں رات اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔”
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے سلطنت اسلامیہ کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔
دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔
جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
لوگوں نے کہا، “ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے۔”
قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
قاصد نے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبد العزیز کو دے دیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام: ” ایک قاضی کا تقرر کرو، جو پادری کی شکایت سنے۔” مہر لگا کر خط واپس قاصد کو دیدیا۔
سمرقند لوٹ کر قاصد نے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، تو پادری پر بھی مایوسی چھا گئی۔
اس نے سوچا .. کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچے ۔
قتیبہ نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
قتیبہ نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا :قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
قتیبہ نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔
ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور مفتوح قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔
ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔
وہ کیا گردوں تھا کہ تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
💥  عبدالوحید ٨٨ تلہ گنگ  💥
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 weeks ago
3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
سبق آموز
بادشاہ کا قیمتی موتی گم ھو گیا ، اس نے اعلان کیا کہ جو اسے ڈھونڈ لائے گا اسے اس اس انعام سے نوازا جائے گا !
سارے درباری سردار اور معززین تلاش میں لگ پڑے ،، دو دن کی جان مار تلاش کے بعد ایک درباری کو وہ موتی مل گیا، جبکہ باقی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام رھے !
بادشاہ نے ڈھوندنے والے کو حسب وعدہ تمام انعامات سے نوازا اور اس کی محنت کی تعریف کی !
اس کے بعد بادشاہ دوسرے درباریوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کی محنت پر ان کے لیئے خیر کے کلمات کہے اور پھر ان کو بھی انعامات دیئے ! یہ منظر دیکھ کر اس درباری کو کہ جسے وہ موتی ملا تھا، کچھ اچھا نہیں لگا اور اس کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نظر آنے لگے ! بادشاہ جو یہ سب محسوس کر رھا تھا وہ اس درباری کی طرف متوجہ ھوا اور اس سے کہا کہ
"میں نے موتی ڈھونڈنے والے سے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تمہیں نواز دیا اور اس میں کمی کوئی نہیں کی ! پھر میں سعی والوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کو نوازا اور تیرے حق میں سے کم کر کے نہیں دیا بلکہ اپنے خزانے سے دیا،، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوشش کر کے بھی جن کو نہ ملا ان کو محروم کر دونگا ! موتی ایک تھا اور ایک کو ھی ملنا تھا،،
مگر سعی کرنے والے بہت تھے،، پانے والے کو پانے کا صلہ مل گیا اور سعی والوں کو ان کے خلوص کا صلہ ملا !!
مگر اے شخص میں تیرے چہرے پہ ناگواری کے آثار دیکھتا ھوں گویا کہ تو میرے فیصلے میں بے انصافی دیکھتا ھے ؟ تو میری عطا کو اپنے احسان سے کم سمجھتا ھے اور مجھے اپنے احسان کے تابع رکھ کر مجھ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاھتا ھے،تو چاھتا ھے کہ میں سب کو محروم رکھوں کیونکہ اس میں تیری رضا ھے !!
جہاں تک تیرے احسان کا تعلق ھے تو اس کی اھمیت میرے نزدیک بس اتنی ساری ھے"
،،یہ کہہ کر بادشاہ نے موتی کو فرش پر پٹخ کر ٹکڑے کر دیا،، اور اپنا خطاب جاری رکھا !
میرے خزانے ایسے موتیوں سے بھرے پڑے ھیں ِ پا کر احسان جتلانے والوں کی نسبت نہ پا کر پچھتاوے کا احساس رکھنے والے مجھے زیادہ عزیز ھیں ،، کیونکہ پچھتاوہ انکساری پیدا کرتا ھے اور احسان تکبر پیدا کرتا ھے ! اور کسی بادشاہ کے دربار میں کسی متکبر کی کوئی جگہ نہیں !
یہ کہہ کر بادشاہ نے اس درباری کو اپنی مجلس سے نکال دیا !!
ھمیں اپنی بخشش پر نظر رکھنی چاھئے نہ کہ اپنے چند ناقص سجدوں کے عوض اللہ کی عطا پر قدغن لگانی چاھئے کہ وہ جس پر بھی فضل کرے ھماری خواہش کے خلاف نہ کرے !! ھمیں کبھی بھی اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان نہیں آنا چاھئے ،، " چاھے وہ گنہگار بندے ھی کیوں نہ ھوں ۔"
منقول
See more
2 weeks ago
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
یہ سب ایک تحفہ کے ساتھ شروع ہوا.  ہیمبرگ میں ایک چھ سالہ لڑکے کو فلو ہوا تھا اور اس کی ماں اسے خوش کرنے کے لیے تھوڑا سا تحفہ لے کر آئی تھی۔  یہ ساحلی مال بردار جہاز کا 1:1250 پیمانے کا چھوٹا تھا، جسے ماڈلنگ کمپنی Wiking نے بنایا تھا۔  بچہ ہر روز دریائے ایلبی میں اس طرح کے جہاز دیکھ سکتا تھا، اور اب وہ اپنی ہتھیلی میں ایک جہاز رکھ سکتا تھا۔  اس نے چھوٹے جہازوں کو جمع کرنا شروع کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ ایڈمرل بننا چاہتا ہے۔  وہ کبھی ایڈمرل نہیں بنا، لیکن اس نے دنیا بھر میں سب سے بڑا نجی سمندری مجموعہ بنایا۔  وہ بچہ بڑا ہو کر بین الاقوامی میری ٹائم میوزیم ہیمبرگ کے بانی پروفیسر پیٹر ٹام بن گیا۔  80 سال سے زائد کا جذبہ جمع کرنے کے بعد تقریباً چھ سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔  لیکن، ایک طرح سے، اس نے جمع کرنا بند نہیں کیا ہے۔  میوزیم کی ٹیم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔  عجائب گھر کے ڈیک 9 پر 1:1250 پیمانے کے چھوٹے چھوٹے نمونوں کا عمومی ڈسپلے 50.000 سے زیادہ سنگل بحری جہازوں اور دیگر جہازوں کو دکھاتا ہے۔  اپنے تحفے کے بارے میں محتاط رہیں۔  آپ کبھی نہیں جانتے کہ آپ کیا شروع کر سکتے ہیں۔
یہ تصویر میوزیم کے ڈیک 9 پر 1:1250 چھوٹے سائز کے ہمارے عمومی ڈسپلے کے خصوصی اور کام کرنے والے جہازوں کے حصے کی ایک تفصیل ہے۔
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 weeks ago
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
اللہ تعالی کی مخلوقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
بعض بھائی گریجویشن مکمل ہوتے ہی چند ماہ بعد اس رب سے نا امید ہوکر بیٹھ جاتے ہیں جس نے 93 بلین نوری سال پر محیط ایک بڑی "کاٸنات" بناٸی ہے، جسکو صرف دیکھنے کے لیے ایک ارب سال کا  وقت بھی ناکافی ہے، اتنے بڑے رب سے ناامید ہونا عقل مندی نہیں ہے، اگر آپ کے اندر صلاحيت ہے،، تو وہ آپکو کبھی ضائع نہیں کرے گا البتہ وہ آپ کا امتحان لے سکتا ہے اس پر بھروسہ رکھو اور پوری ایمان داری اور لگن کے ساتھ اپنی محنت جاری رکھیں آپ کو وہی ملے گا جو اپکے مقدر میں لکھا ہوگا کیوں کہ ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ اللہ تعالی کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔
اللہ تعالی وہ ذات ہے جو جانوروں کو سمندر کے اندر رات کے اندھیرے میں رزق دیتی ہے،،،،،،، اور آپ ایسے رب سے مایوس ہو جاتے ہیں اوپر ایک بلیو وہیل کا دل ہے،اس کا وزن 1,300 پونڈ/ 590 کلوگرام سے زیادہ ہے،، یعنی ایک چھوٹی کار کا سائز جتنا ہوتا ہے،، اس طرح اس کا دل 8 سے لیکر 10 بار فی منٹ دھڑکتا ہے،،، اور "دل" کی ہر دھڑکن 2 میل یعنی 3.2 کلومیٹر دور سے سنی جاسکتی ہے۔  سب سے حیران کن بات یہ ہےکہ بعض بلو وہیل کی شریانیں اتنی بڑی ہوتی ہیں، کہ اس کے اندر ایک بالغ انسان آسانی سے تیر سکتا ہے۔
پیدائش کے وقت "بلو وہیل" کا ایک "بچہ" تقریبا 25 فٹ لمبا ہوتا ہے،، اور بلو وہیل کا یہی "بچہ" ایک دن میں تقریبا 150 گیلن (568 لیٹر) دودھ پیتا ہے،،،، جس سے اس کے وزن میں یومیہ 200 پونڈ یعنی 90 کلوگرام تک کا اضافہ ہوتا ہے ایک سال بعد بلو وہیل کا یہی بچہ کرل پر کھانا کھانا شروع  کرتا ہے، جو کہ چھوٹے کیکڑے اور مچهلی وغیرہ شامل ہوتے ہیں، جو اوسطاً صرف ایک یا دو سینٹی میٹر تک "لمبے" ہوتے ہیں ساٸنسی ماہرین کہتے ہیں کہ اسطرح وہ ایک دن میں 4 سے لیکر 6 ٹن تک کرل کھاتے ہیں، یعنی "بلو وہیل" کا ایک چھوٹا بچہ ہم سے کہیں زیادہ خوراک کھاتا ہے جو بالغ ہونے کے بعد لمبائی میں 110 فٹ (33 میٹر) تک پہنچتے ہیں،،،، اور ان کا وزن 180 ٹن تک بڑھ جاتا ہے،، ایک منٹ کے لٸے سوچ لیں کہ اس وقت سمندر میں کتنے بلو وہیل گھوم رہے ہوں گے ان کو رزق کون دے رہا ہے؟ اللہ تعالی پر مکمل بھروسہ رکھیں، اللہ تعالی کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
2 weeks ago
1 React 37 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
بے وفائی کے صلے میں با وفا پکڑے گئے
آپ سے کس نے کہا ہم بے خطا پکڑے گئے
صرف اک میں ہی نہیں پکڑا گیا اے ہم نشیں
تیرے کوچے میں ہزاروں پارسا پکڑے گئے
اب اسیرانِ وفا کا حال و مستقبل نہ پوچھ
بارہا چھوٹے قفس سے بارہا پکڑے گئے
یوں نگاہِ ناز نے پھینکی کمندِ التفات
اہلِ دل، اہلِ نظر، اہلِ وفا پکڑے گئے
عالمِ انسانیت میں حشرِ نو برپا ہوا
راہزن کے آڑ میں جب رہنما پکڑے گئے
دشمنوں کی دشمنی کا تذکرہ بے سود ہے
دشمنی کے راستے میں آشنا پکڑے گئے
میکش ناگپوری
See more
2 weeks ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://fb.watch/mWIZOgSmEg/?mibextid=Nif5oz
3 weeks ago
1 React 2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
https://fb.watch/mWIZOgSmEg/?mibextid=Nif5oz
3 weeks ago
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Fifth grade kid Ahmad Yar Khan's letter to Jinnah, (Bahawalnagar) 7 April, 1942
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
3 weeks ago
1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اب  تجھ جیسے
اللّٰہ نے دودھ فروش کو نوازا ۔۔۔۔تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔۔۔۔ !
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر ملک معراج خالد تھے۔ وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔ میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا۔ میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ڈائریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔ یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔
اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ڈائریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل مین گو اینڈ فیس دی میوزک۔
خیر میں ڈائریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔
وہاں پہنچا تو ڈائریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ڈائریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔ مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: سر میں آصف، آپ نے بلایا تھا؟
آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟
جی سر میں نے لکھا تھا۔
تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
کافی دیر یونہی گزر گئی۔
ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے۔ ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔ پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آ پ کی معلومات ناقص تھیں۔ میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اورمعاملہ بھی تھا۔ میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔ میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔ میں دودھ بیچ کر کالج پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔ گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔ اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔ اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔ واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔
ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔ یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔ واقعی ،اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔ بار بار دہراتے رہے: اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔
پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھاکہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ڈائریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔ کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے: سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ، فیسوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی، دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔
ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رؤف صاحب نے پوچھا، ہاں کیا ہوا؟ میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔ رؤف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی، مجھے آج بھی یاد ہے۔ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ تو میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہونا چاہیے۔.  آپ ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز رہے جب انتقال ھو ایک کرایہ کے مکان میں رھتے تھے اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
See more
3 weeks ago
3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
چند برس پرانی بات ہے‘ ایک امریکی نو مسلم نے قرآن مجید سے حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالیٰ کے 100 احکامات جمع کیے‘ یہ احکامات پوری دنیا میں پھیلے مسلم اسکالرز کو بھجوائے اور پھر ان سے نہایت معصومانہ سا سوال کیا کہ ’’ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کرتے‘‘ مسلم اسکالرز کے پاس اس معصومانہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا.
مجھے چند دن قبل ایک دوست نے یہ احکامات ’’فارورڈ‘‘ کر دیے‘ میں نے پڑھے اور میں بڑی دیر تک اپنے آپ سے پوچھتا رہا ’’ہمارے رب نے ہمیں قرآن مجید کے ذریعے یہ احکامات دے رکھے ہیں‘ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر پورا اترتے ہیں‘‘ میں یہ احکامات سو نمبر کا پرچہ سمجھ کرترجمہ کر رہا ہوں اور میں یہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ آپ پہلے یہ پرچہ حل کریں‘ پھر خود اس کی مارکنگ کریں‘ پھر اپنے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ کریں اور آخر میں یہ سوچیں ہم قیامت کے دن کیا منہ لے کر اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے‘ آپ کا یہ جواب فیصلہ کرے گا ہم کتنے مسلمان ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا!
1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو
2 غصے کو قابو میں رکھو
3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو‘
4 تکبر نہ کرو‘
5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو
6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو‘
7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو
8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو‘
9 والدین کی خدمت کیا کرو‘
10 منہ سے والدین کی توہین کا ایک لفظ نہ نکالو‘
11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو‘
12 حساب لکھ لیا کرو‘
13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو‘
14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو‘
15 سود نہ کھاؤ‘
16 رشوت نہ لو‘
17 وعدہ نہ توڑو‘
18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو‘
19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو‘
20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو‘
21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو‘
22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو
23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں,
24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو‘
25یتیموں کی حفاظت کرو‘
26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو,
27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘
28 بدگمانی سے بچو‘
29 غیبت نہ کرو‘
30 جاسوسی نہ کرو‘
31 خیرات کیا کرو‘
32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو‘
33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو‘
34 فضول خرچی نہ کیا کرو‘
35 خیرات کر کے جتلایا نہ کرو‘
36 مہمانوں کی عزت کیاکرو‘
37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو‘
38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو‘
39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو‘
40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں‘
41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو‘
42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ‘
43 مذہب میں کوئی سختی نہیں
44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ‘
45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو‘
46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ‘
47 جنسی بدکاری سے بچو‘
48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو,
49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو‘
50 نفاق سے بچو‘
51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو‘
52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے,
53 منتخب خونی رشتوں میں شادی نہ کرو
54 مرد کو خاندان کا سربراہ ہونا چاہیے‘
55 بخیل نہ بنو‘
56 حسد نہ کرو,
57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘
58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو‘
59 گناہ اور شدت میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو‘
60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو‘
61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی‘
62 صحیح راستے پر رہو‘
63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو‘
64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو‘
65 مردہ جانور‘ خون اور سور کا گوشت حرام ہے‘
66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو‘
67 جواء نہ کھیلو‘
68 ہیرا پھیری نہ کرو‘
69 چغلی نہ کھاؤ،
70 کھاؤ اور پیو لیکن اصراف نہ کرو‘
71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو‘
72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو‘ انھیں مدد دو‘
73 طہارت قائم رکھو‘
74 اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو‘
75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے‘
76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ‘
77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘
78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو‘
79 جس کے بارے میں علم نہ ہو اس کا پیچھا نہ کرو‘
80 پوشیدہ چیزوں سے دور رہا کرو (کھوج نہ لگاؤ)‘
81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو‘
82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے‘
83 زمین پرعاجزی کے ساتھ چلو‘
84 دنیا سے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے جاؤ‘
85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو,
86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو‘
87 صحیح(سچ) کا ساتھ دو‘ غلط سے پرہیز کرو‘
88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو
89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں
‘90 اللہ شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے‘                                                                                                                          91 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘
92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو‘
93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو‘
94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘
95 مذہب میں رہبانیت نہیں‘
96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے‘
97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘
98 خود کو لالچ سے بچاؤ‘
99 اللہ سے معافی مانگو‘ یہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے
100 ’’جو شخص دست سوال دراز کرے اسے انکار نہ کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے یہ سو احکامات حقوق العباد ہیں‘ ہم جب تک سو نمبروں کے اس پرچے میں پاس نہیں ہوتے ہم اس وقت تک مسلمان ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں خواہ ہم پوری زندگی سجدے میں گزار دیں یا پھر خانہ کعبہ کی چوکھٹ پر جان دے دیں‘ آپ یہ پرچہ حل کریں‘ مارکنگ کریں اور اپنے گریڈز کا فیصلہ خود کر لیں۔
See more
30 August at 05:57
3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
چند برس پرانی بات ہے‘ ایک امریکی نو مسلم نے قرآن مجید سے حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالیٰ کے 100 احکامات جمع کیے‘ یہ احکامات پوری دنیا میں پھیلے مسلم اسکالرز کو بھجوائے اور پھر ان سے نہایت معصومانہ سا سوال کیا کہ ’’ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کرتے‘‘ مسلم اسکالرز کے پاس اس معصومانہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا.
مجھے چند دن قبل ایک دوست نے یہ احکامات ’’فارورڈ‘‘ کر دیے‘ میں نے پڑھے اور میں بڑی دیر تک اپنے آپ سے پوچھتا رہا ’’ہمارے رب نے ہمیں قرآن مجید کے ذریعے یہ احکامات دے رکھے ہیں‘ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر پورا اترتے ہیں‘‘ میں یہ احکامات سو نمبر کا پرچہ سمجھ کرترجمہ کر رہا ہوں اور میں یہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ آپ پہلے یہ پرچہ حل کریں‘ پھر خود اس کی مارکنگ کریں‘ پھر اپنے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ کریں اور آخر میں یہ سوچیں ہم قیامت کے دن کیا منہ لے کر اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے‘ آپ کا یہ جواب فیصلہ کرے گا ہم کتنے مسلمان ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا!
1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو
2 غصے کو قابو میں رکھو
3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو‘
4 تکبر نہ کرو‘
5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو
6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو‘
7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو
8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو‘
9 والدین کی خدمت کیا کرو‘
10 منہ سے والدین کی توہین کا ایک لفظ نہ نکالو‘
11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو‘
12 حساب لکھ لیا کرو‘
13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو‘
14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو‘
15 سود نہ کھاؤ‘
16 رشوت نہ لو‘
17 وعدہ نہ توڑو‘
18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو‘
19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو‘
20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو‘
21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو‘
22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو
23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں,
24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو‘
25یتیموں کی حفاظت کرو‘
26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو,
27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘
28 بدگمانی سے بچو‘
29 غیبت نہ کرو‘
30 جاسوسی نہ کرو‘
31 خیرات کیا کرو‘
32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو‘
33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو‘
34 فضول خرچی نہ کیا کرو‘
35 خیرات کر کے جتلایا نہ کرو‘
36 مہمانوں کی عزت کیاکرو‘
37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو‘
38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو‘
39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو‘
40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں‘
41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو‘
42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ‘
43 مذہب میں کوئی سختی نہیں
44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ‘
45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو‘
46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ‘
47 جنسی بدکاری سے بچو‘
48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو,
49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو‘
50 نفاق سے بچو‘
51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو‘
52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے,
53 منتخب خونی رشتوں میں شادی نہ کرو
54 مرد کو خاندان کا سربراہ ہونا چاہیے‘
55 بخیل نہ بنو‘
56 حسد نہ کرو,
57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘
58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو‘
59 گناہ اور شدت میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو‘
60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو‘
61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی‘
62 صحیح راستے پر رہو‘
63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو‘
64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو‘
65 مردہ جانور‘ خون اور سور کا گوشت حرام ہے‘
66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو‘
67 جواء نہ کھیلو‘
68 ہیرا پھیری نہ کرو‘
69 چغلی نہ کھاؤ،
70 کھاؤ اور پیو لیکن اصراف نہ کرو‘
71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو‘
72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو‘ انھیں مدد دو‘
73 طہارت قائم رکھو‘
74 اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو‘
75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے‘
76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ‘
77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘
78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو‘
79 جس کے بارے میں علم نہ ہو اس کا پیچھا نہ کرو‘
80 پوشیدہ چیزوں سے دور رہا کرو (کھوج نہ لگاؤ)‘
81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو‘
82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے‘
83 زمین پرعاجزی کے ساتھ چلو‘
84 دنیا سے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے جاؤ‘
85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو,
86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو‘
87 صحیح(سچ) کا ساتھ دو‘ غلط سے پرہیز کرو‘
88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو
89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں
‘90 اللہ شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے‘                                                                                                                          91 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘
92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو‘
93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو‘
94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘
95 مذہب میں رہبانیت نہیں‘
96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے‘
97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘
98 خود کو لالچ سے بچاؤ‘
99 اللہ سے معافی مانگو‘ یہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے
100 ’’جو شخص دست سوال دراز کرے اسے انکار نہ کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے یہ سو احکامات حقوق العباد ہیں‘ ہم جب تک سو نمبروں کے اس پرچے میں پاس نہیں ہوتے ہم اس وقت تک مسلمان ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں خواہ ہم پوری زندگی سجدے میں گزار دیں یا پھر خانہ کعبہ کی چوکھٹ پر جان دے دیں‘ آپ یہ پرچہ حل کریں‘ مارکنگ کریں اور اپنے گریڈز کا فیصلہ خود کر لیں۔
See more
30 August at 01:30
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
28 August at 06:32
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایسے ہی لوگوں کی برکت سے دنیا قائم ہے۔
اس درویش صفت مخلص عالم دین کی زیارت کیجیے یہ پروفیسرڈاکٹرنوراحمد شاہتاز صاحب ہیں سابق ڈائریکٹر شیخ زید اسلامک سنٹر کراچی،سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل،ممبر شریعہ ایڈوائزری کمیٹی SBP ،بیسیوں عظیم الشان تحقیقی کتب کے مصنف،ہزارھا لیکچررز اورسینکٹروں  کانفرنسز کے خطیب نہایت مصلح و مخلص مبلغ ہیں ان کے دست مبارک پہ ہزاروں ہندو وعیسائی ودیگر مذاہب کے لوگ مسلمان یوچکے ہیں آپ انہیں جب بھی دیکھیں گے دین متین کی تبلیغ میں مصروف دیکھیں گے ہندو بستیوں  میں جاکر نہ صرف انہیں قائل کرتے ہیں بلکہ ان مسلمان ہونے والے نومسلم احباب کے لیے نئی بستیاں آباد کرتے ہیں ان کے لیے مساجد ومدارس و رہائش گاہیں اور دیگر تمام تعلیمی و تربیتی امور میں مصروف عمل رہتے ہیں نہایت منکسر المزاج اور مثبت اندازِ فکر کے حامل ہیں اللہ تعالی ان کا سایہ کرم سلامت رکھے
ہمارے علمائے اسلام کو عموما اور علمائے اہلسنت کو خصوصا ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ڈاکٹر صاحب کبھی باہمی اختلاف وانتشار میں نہیں پڑے اپنے کام میں لگے رہنا ان کی اہم خوبی ہے اہلسنت کے داخلی انتشار سے اپنے آپ کو بچا کر خالص دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہنا بڑی ہمت کا کام ہے آج شدید ضرورت ہے ایسے بالغ نظر اور راسخ الفکر علمائے حق کی جو فروعات و فضولیات سے اپنا دامن بچا کر دین اسلام کی سچی خدمت کر رہے ہیں
ڈاکٹر غلام محی الدین صاحب کی تحریر
ابو حسان کی وال سے
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
27 August at 06:50
1 React 2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
مجھے سرمہ دانی کی وجہ سے سہی جانے والی اذیتیں اب بھی یاد ہیں ۔۔۔۔
جہاں سے بھی گزر رہے ہوتے امی یا دادی دبوچ لیتیں ۔۔۔۔
ہم لاکھ ٹکریں مارتے ان کے پیٹ میں ۔۔ پر کنگ فو جاپانی کی طرح ایک ہاتھ سے سلائی پکڑتیں اور ایک ہاتھ سے نشانہ یعنی آنکھ !!!
پوری آنکھ کو اس طرح زبردستی کھولتیں کہ کئی دفعہ ڈیلہ احتجاجا باہر نکلنے کو دوڑتا ۔۔۔۔
پھر انتہائی ماہرانہ طریقے سے سلائی ایسے آنکھ میں پھیرتیں جیسے امیدوں پہ کوئی پانی پھیرتا ہے ۔۔۔۔
خدا گواہ ہے ۔۔ اس سرمے کے سیشن سے پہلے سب صاف نظر آتا تھا ۔۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہیں رہتی تھی اور جو بھی میرا چہرہ اوپر کرتا  لال بوٹی آنکھیں دیکھ کے آپ چیخیں مارتا پھرتا ۔۔۔
آنکھیں کیا پیاری ہونی تھیں ۔۔ لوگ نزدیک ہی نہیں پھٹکتے تھے !!! آج میری ماں جی اور دادی جان  بہت یاد  آتی ہیں  لیکن وہ جہاں چلی گئ ہیں وہاں سے واپسی ممکن نہیں   اللہ انکی بخشش فرماۓ
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
27 August at 06:38
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
محترم جناب کنٹرولر پاکستان الیکٹرک سپلائر اور  پرائس کنٹرولر
جناب عالی
گزارش ہے سب سے پہلے خطے میں تمام ملکوں سے مہنگی بجلی دینے کی وضاحت کریں، تمام لوگوں کی فری بجلی فی الفور بند کی جائے
مزید برآں کہ تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکسز کے  سلسلہ کی وضاحت کریں:
  1. بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟
  1. کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کاٹیکس؟
  1. کس پرائیس پہ الیکٹریسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟
  1. کون سیے فیول کی کس پرائیس پر ایڈجسٹمنٹ؟
  1. بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیوں؟
  1. ٹی وی کی کونسی فیس، جبکہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں جس کے الگ سے پیسے دیتے ہیں۔
  1. جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ کون سی ہے؟
  1. کون سی فنانس کی  کاسٹ چارجنگ؟
  1. جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
  1. کس چیز کے اور کون سے further ( اگلے) چارجز؟
  1. ود ہولڈنگ چارجز  کس شے کے؟
  1. میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اسکا کرایہ کیوں؟
  1. بجلی کا کون سا انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس؟
#منقول             منجانب: مُحِبِّ وطن پاکستانی
See more
25 August at 14:16
1 React 34 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
یہ کیا ہے اور آپ کی زبان میں اسے کیا کہتے ہیں
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
25 August at 00:09
2 Reacts 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
20 August at 07:42
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ﺍﯾﮏ ﻟﺒﺮﻝ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮉﮐﺲ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﺩﺭﺩ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ -
ﻣﺮﺽ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ دیکھتے ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮﺯ ﻧﮯ ﺳﺮﺟﺮﯼ ﻟﮑﮫ ﺩﯼ - ﺍﺱ ﮐﺎ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ -
ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ سائنسدان " ﺍﻟﺮﺍﺯﯼ " ﮐﮯ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ بے ہوش ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ -
پھر ﺍﺳﮑﯽ ﺳﺮﺟﺮﯼ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﺁﻻﺕ ﺳﮯ ﺳﺮﺟﺮﯼ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ " ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺍﻟﺰﮨﺮﻭﯼ " ﻧﮯ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺌﮯ -
پھر ﺍﺳﯽ " ﺍﻟﺰﮨﺮﻭﯼ " ﮐﮯ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﺩﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﭨﺎﻧﮑﻮﮞ سے ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔
پھر ﺍﺳﯽ " مسلمان " ﮐﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﺩﮦ ﮈﺭﭖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ " ﺍﺑﻦ ﺳﯿﻨﺎ " ﮐﯽ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺩﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺟﺪﯾﺪ ﺍﺩﻭﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﮑﻨﯿﮏ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺩﻭﺍ ﺍﺱ ﮈﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﺮﮎ ﻣﺳﻠﻤﺎﻥ سائنسدان " ﯾﻌﻘﻮﺏ ﺍﻟﮑﻨﺪﯼ " ﮐﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﺠﯿﮑﭧ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ
ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﺟﻠﺪ ٹھیک ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ .
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺩﺭﺩ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ - ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮒ ﮔﯿﺎ - ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺮﺱ بھاﮔﯽ
بھاﮔﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ " ﭘﯿﻦ ﮐﻠﺮ " ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﻧﮕﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ -
ﻟﺒﺮﻝ ﺷﺨﺺ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﻧﮕﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ : " ﺳﺴﭩﺮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺧﻮﻝ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﻧﺮﺱ :
"ﺳﺮ ﯾﮧ ﺧﻮﻝ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، گھبرﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ "-
ﻟﺒﺮﻝ :
"ﻭﺍﮦ ! ﮐﯿﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ -  ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﺍﺳﮑﮯ ﻣﻮﺟﺪ ﮐﯽ ﻗﺮﺽ ﺩﺍﺭ ﮨﮯ ۔
ﻧﺮﺱ :
"ﺟﯽ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ سائنسدان " ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺍﻟﺰﮨﺮﻭﯼ " ﮐﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ "-
ﻟﺒﺮﻝ :
ﮨﻮﮞ ! ﻧﮑﻤﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ! ﯾﮧ بھی ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﻮﺋﯽ؟؟ - ﺟﺎﮨﻞ !
ﻣﻐﺮﺏ ﻣﺮﯾﺦ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﻣﯿﮟﺍﭨﮑﺎ ﮨﮯ "-
ﻧﺮﺱ :
"ﺳﺮ ﯾﮧ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﮨﻠﯿﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﻔﺮ سمجھا ﮐﺮﺗﮯ تھے"-
ﻟﺒﺮﻝ ﺯﭺ ﮨﻮ ﮐﺮ :
"ﺍچھا  - ﺍچھا - ﺁﭖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﮐﺎﻟﺖ چھوﮌﯾﮟ - ﻣﯿﺮﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﯿﭗ ﭨﺎﭖ ﺩﮮ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻭﮦ مجھے ﻻ ﺩﯾﮟ "-
ﻧﺮﺱ ﻟﯿﭗ ﭨﺎﭖ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ :
" ﻭﯾﺴﮯ ﺳﺮ ﺍﻥ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﮔﯿﺠﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭکھنے ﻭﺍﻟﯽ Bios ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﺒﺮﺍ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ سائنسدان " ﻣﻮﺳﯽ ﺍﻟﺨﻮﺍﺭﺯﻣﯽ " ﮐﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ ،
ﺳﭻ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻠﮑﻮﻟﯿﭩﺮ ، ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﯾﺎ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ، ﻏﺮﺽ ﮨﺮ ﺧﻮﺩﮐﺎﺭ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﯽ " ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ " ﮐﯽ ﮨﮯ "-
ﻟﺒﺮﻝ ﺗﻠﻤﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ :
" ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺅ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ "! ﻧﺮﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﯿﭗ ﭨﺎﭖ کھوﻝ ﮐﺮ ﻓﯿﺴﺑﮏ ﭘﺮ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﻟﮕﺎﯾﺎ :
"ﺟﺪﯾﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﻭ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ' ﺻﻔﺮ ' ﮨﮯ "-
ﭘﻮﺳﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯽ ﮐﻤﻨﭧ بھی ﺁ ﮔﯿﺎ :
"ﯾﮧ ﺻﻔﺮ بھی ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ "ﻣﻮﺳﯽ ﺍﻟﺨﻮﺍﺭﺯﻣﯽ " ﮐﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ "!
اس سے پہلے کہ وہ کچھ جواب دیتا
نرس نے کمنٹ کر دیا :
ہن چنگے رئے ہو"۔۔۔
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
20 August at 07:39
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
@ ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا ڈالا
ہم دعا لکھتے رھے وہ دغا پڑھتے رھے
ایک خوبصورت شگفتہ تحریر
دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، جون کا مہینہ ہے- سمن آباد کی گلیوں میں ایک ڈاکیا پسینے میں شرابور بوکھلایا سا پھر رہا ہے- محلے کے لوگ بڑی حسرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں-
اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے وہ کچھ دیر اِدھراُدھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل
‏کھڑی کر کے دکاندار کی طرف بڑھتا ہے- "قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہےاس نے آھستہ سے پوچھا
دکاندار کے پیروں تلے زمین نکل گئی
اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں
"قق .... قاتل سپاہی- مم .... مجھے کیا پتا
اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا
ڈاکیا پھر پریشان ہو گیا
اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی‏طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا، چپکے سے کھسک جاتا- ڈاکیا نیا تھا، جان نہ پہچان ہے اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری- آخر وہ کرے تو کیا کرے،
کہاں سے ڈھونڈے قاتل سپاہی کواس نے پھر سے نام پڑھانام
اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس ‏تھا
تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا
بڑے واضح الفاظ میں "قاتل سپاہی
غالب سٹریٹ، سمن آباد" لکھا تھا
دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا-
پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا
اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائےگا اسکاحلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس‏ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور ایک گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی
اچانک اسے زوردار جھٹکا لگا
جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی نیم پلیٹ پر انگلش میں "قاتل سپاہی" لکھا ہوا تھاخوشی کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی- اتنی دیر میں دروازہ ‏کھلا اور نوجوان باہر نکلا
ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی-
کیا آپ ہی کا یہ نام ہے؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا-
"نہیں .....!
یہ میرے دادا ہیں
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا
کیا نام ہے ان کا؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا-
"قتیل شفائی-"(Qatil Shiphai)
See more
19 August at 06:11
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
الحمدللّٰه علی کل حال انا مسلم 💞
اپنی مسلمان ہونے پر  فخر محسوس کرو
! خودکشی
سوئٹزرلینڈ نے ایک خودکش مشین کو قانونی اجازت دے دی ہے جو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ایک شخص کو ہلاک کر دیتی ہے۔  بغیر کسی درد کے اسمیں انسان درد محسوس نہیں کرتا ۔۔یہ مشین ان لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مشین کو سارکو کہا جاتا ہے اور اس کی شکل تابوت جیسی ہے، جب کسی شخص کو اس میں ڈالا جاتا ہے تو بٹن دبانے سے نائٹروجن گیس پیدا ہوتی ہے اور آکسیجن کی سطح کم ہونے سے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ ہمیں سب کو الحمدللہ کہنا چاہیے اور رب کریم کاشکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور رب العالمین کی دی ہوئی نعمت زندگی کا کفرانِ نعمت نہیں کرتے ۔زندگی / زندگی میں حالات جتنے بھی مخدوش ہوں مایوس نہیں ہوتے اور اپنے رب سے مدد اور معافی کے طلبگار رہتے ہیں
اللہ کریم ہم سب کا حامی وناصر ہو آمین
See more
18 August at 04:17
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
الحمدللّٰه علی کل حال انا مسلم 💞
اپنی مسلمان ہونے پر  فخر محسوس کرو
! خودکشی
سوئٹزرلینڈ نے ایک خودکش مشین کو قانونی اجازت دے دی ہے جو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ایک شخص کو ہلاک کر دیتی ہے۔  بغیر کسی درد کے اسمیں انسان درد محسوس نہیں کرتا ۔۔یہ مشین ان لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مشین کو سارکو کہا جاتا ہے اور اس کی شکل تابوت جیسی ہے، جب کسی شخص کو اس میں ڈالا جاتا ہے تو بٹن دبانے سے نائٹروجن گیس پیدا ہوتی ہے اور آکسیجن کی سطح کم ہونے سے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ ہمیں سب کو الحمدللہ کہنا چاہیے اور رب کریم کاشکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور رب العالمین کی دی ہوئی نعمت زندگی کا کفرانِ نعمت نہیں کرتے ۔زندگی / زندگی میں حالات جتنے بھی مخدوش ہوں مایوس نہیں ہوتے اور اپنے رب سے مدد اور معافی کے طلبگار رہتے ہیں
اللہ کریم ہم سب کا حامی وناصر ہو آمین
See more
18 August at 04:13
1 React 1 View
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
16 August at 11:31
1 React 2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
اصغر سودائی روزانہ ایک قومی نظم لکھ کر لاتے اور جلسے میں موجود افراد کو سناتے تھے۔ ایک دن وہ ایک ایسی نظم لکھ کر لائے، جس کے ایک مصرعہ نے گویا مسلمانوں کے دلوں کے تار کو چھو لیا۔
آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہین میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ:” جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے ؟؟؟“تو میرے ذہین میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ:”پاکستان کا مطلب کیا ہے؟؟؟“
یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیے قائد اعظم نے کہا تھا کہ: ”تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔“
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟ ــــــــــ لا الہ الا اللہ
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
14 August at 13:27
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
نیوٹن دنیا کا مشہور سائنس دان تھا۔ اس کے تین قوانین آج بھی دنیا بھر میں پڑھائے جاتے ہیں۔ نیوٹن سے کسی نے ایک بار پوچھا‘تم سے پوری دنیا متاثر ہے‘ کیا آج تک تمہیں بھی کسی نے متاثر کیا‘ نیوٹن نے مسکرا کر جواب دیا ”ہاں میرے ملازم نے‘ پوچھنے والے نے پوچھا‘وہ کیسے‘ نیوٹن بولا‘میں سردیوں میں ایک بار ہیٹر کے پاس بیٹھا تھا‘ مجھے اچانک گرمی محسوس ہونے لگی‘ میں نے اپنے ملازم کو بلوایا اور اس سے ہیٹر کو دھیما کرنے کی درخواست کی“ ملازم میری بات سن کر ہنسا اور اس نے کہا‘جناب آپ بھی بڑے دلچسپ انسان ہیں‘ آپ کو اگر گرمی محسوس ہو رہی ہے تو آپ مجھے آواز دینے یا ہیٹر دھیما کرنے کی بجائے اپنی کرسی کو گھسیٹ کر آگ سے ذرا سا دور کر لیتے‘ آپ کا مسئلہ  فوراً حل ہو جاتا‘ نیوٹن کا کہنا تھا‘میرے ملازم کا بتایا ہوا وہ اصول میرے تینوں اصولوں پر بھاری تھا‘ اس نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق دیا اور یہ سبق یہ تھا کہ اگر آپ کو گرمی لگ رہی ہے تو آپ آگ بجھانے کی بجائے یا کسی کو مدد کیلئے طلب کرنے کی بجائے‘ اپنی کرسی کو آگ سے ذرا سا دور ہٹا لیں‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس نے مجھے سبق دیا تھا کہ اگر آپ رزق کی تنگی کا شکار ہیں تو آپ اپنے آپ کو خواہشات کی انگیٹھی سے دور کر لیں‘ آپ قناعت اختیار کر لیں تو آپ بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے‘ آپ اللہ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
12 August at 11:50
2 Reacts 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
تقریباً ایک صدی  قبل یعنی20ستمبر1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹاتھا‘ پوراگاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا‘اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھالہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا‘راستے میں ایک برساتی نالے سے اسے گزرناپڑتا‘چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا‘اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا‘مذید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا‘یہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں(جوکہ اس وقت کا نمبر 1سکول تھا) داخلہ لے لیا‘اس کا گاؤں شہر سے13کلومیٹر دور تھا‘ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور اپنی تعلیم جاری رکھے گا چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتا‘ مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا‘ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا‘ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا اور مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور سکول چلا جاتا‘ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا‘ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔
بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے‘ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری تھے‘ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے‘ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا اور اپنے سکول کے جوتے پہن کے سکول چلا جاتا۔ والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا‘ 1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا‘ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھے میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا ‘اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا‘ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھا اور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چنانچہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی‘ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی‘ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا‘ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا‘ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا‘یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا‘ کامیابیوں اور بہتریں کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔
معاشی دباؤ کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔ 1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی‘ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا‘ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے‘ اس جذبہ کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا‘ پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔ 1971ء میں دوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا‘ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا‘ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا‘ اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھانہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی‘ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی‘ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر گیا‘ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔
ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا‘ یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کے مکان میں رہا‘ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا‘ جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا‘ جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا‘ جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی ۔ میرے قارئین اور ہم وطنو! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے‘ آپ 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے‘ ان کے ہم سے رخصت ہوئے  14 سال ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ ایسے افراد کو صدیوں تک  یاد رکھتی ہے‘ یہ کسی کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتے‘ جس نے اپنا مقصد حیات انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا‘ جنہوں نے اپنے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی‘  آج تاریخ پھر اس موڑ پہ ہے جہاں اسے ایسے باہمت و محب وطن رہنما کی ضرورت ہے۔
ملک معراج خالد سے میری اہلیہ کے خاندان کے دیرینہ مراسم تھے ۔ انکے والد محمد مسعود خان سی ایس پی آفیسر تھے ۔ وہ ملک صاحب کی وزارت اعلی کےدور میں سیکرٹری ٹو چیف منسٹر رہے۔ اسی دوران مسعود خان عنفوان شباب میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ ملک معراج خالد عرصہ دراز تک باقاعدہ مرحوم کے بچوں کی دلجوئی کے لیے انکے گھر ماڈل ٹاؤن آتے اور ہر طرح خیال رکھتے ۔ تہمینہ کی دادی اس دوران حج پر گئیں تو ملک صاحب کے لئے آب زم زم ۔ مدینہ منورہ سے کھجوریں اور Benson and Hedges کے سگریٹ کا ایک پیکٹ لائیں ۔ ملک معراج ہدیہ وصول کرکے بہت مسرور تھے۔مگر بڑھیا سگریٹ کا پیکٹ شکریہ سے لوٹادیا اور بولے ۔اماں۔ میں تو K2سگریٹ ہیتا ہوں۔ ولائیتی  سگریٹ میری قوت خرید سے باہر ہے ۔ میری عادت بگڑ جائے گی ۔ ڈاکٹر عبدالرحمن کی سپیریر یونیورسٹی کے بنانے  میں حد درجہ مدد اور سرپرستی کا میں خود چشم دید گواہ ہوں ۔ اللہ تعالٰی مرحوم کے درجات بلند فرمائے آمین ۔
بشکریہ اللہ اکبر
منقول ۔شاہ سید ذولفت
See more
12 August at 10:13
2 Reacts 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
12 August at 04:49
1 React 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
‏ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس نے بازار میں اپنے دوست سے کہا کہ ”آج فوتگی کا اعلان سنا تو میں سمجھا شاید تم فوت ہوگئے ہو۔“
دوست جواباً کہنے لگا ”اگر میں فوت ہوا ہوتا تو دُکانیں اس طرح کُھلی نہ ہوتیں بلکہ پورا بازار بند ہوتا۔“
ایک دن واقعی اس کا دوست فوت ہوگیا۔
بتانے والا بتاتا ہے ‏کہ بازار میں کوئی دُکان بند ہونا تو درکنار اس کے سگے بھائی کی بھی دُکان کھلی ہوئی تھی۔جب اس کے بھائی سے پوچھا تو کہنے لگا کہ ”جنازہ ابھی لیٹ ہے۔دودھ، دھی خراب نہ ہوجائے۔میں جلدی سے ان کو بیچ کر دُکان بند کرکے آتا ہوں۔“
قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر دنیا رک جاۓ گی!!
اپنے اعمال کی اصلاح کیجئے جانے کب بلاوا آ جائے اور توبہ کا موقع بھی نہ مل سکے۔اللہ کریم ہم سب کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے...(آمین یارب العالمین)
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
11 August at 08:45
2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک امریکی ڈاکٹر طریقہ سمجھا رہے ہیں کہ جب سانس تنگ ہوجائے تو دل اور پھیپھڑوں تک آکسیجن کیسے پہنچائی جائے، وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پھر اپنا سر اپنی ہتھیلیوں پر رکھ کر بتاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے سانس بحال ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے دل اور پھیپھڑوں تک آکسیجن پہنچتی ہے.
آئیے قرآن مجید پڑھتے ہیں. :
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(97)فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(98)سورہ حجر
"اور بیشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ" ۔
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(20) وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(21)سورہ ذاریات
"اور زمین میں یقین والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔اور خود تمہاری ذاتوں میں ،تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟ ".
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم "3💙💕🥀
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
11 August at 05:05
1 React 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
‏اٹھایئس سال قبل اگست 1995 کاواقعہ ھے
حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔
بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔‏سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:-
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔
شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے ‏زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔
ایک طرف سے آواز آئی فائر...
سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں ‏برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ ‏کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔
ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔
اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے۔ ‏جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔
شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ ‏نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔
لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔‏انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔
شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے ‏پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔
یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا ‏دورِ جاہلیت سے ہے۔
یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا....
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں ‏نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے ‏بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔
اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔
کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔
کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔
اگست  1995 سے اگست 2023 تک اٹھائیس سال گذر گئے۔
‏آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔
جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے ‏پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔
گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی ‏مانگی گئیں۔
مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا.......
اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔
غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی ‏واقعہ ہوا بھی تھا؟
پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟
یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ‏ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں ضرور بھیجیں جس سے ھمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ھوتا ھو.....
درخواست ہے کہ دس دوستوں کو بھیج دیں
آخری بات.........
*اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں۔
See more
10 August at 06:51
1 React 2 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
مبارک رشوت
میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا
"ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9 بجے سے 12 تک بلا روک و ٹوک تشریف لا سکتے ہیں۔"
ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھے زمین ہے۔ جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں، تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔
اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60۔70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔
ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شر انگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے جزدان اٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔
"حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں۔"
گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔"
ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کر دیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا۔ "لو بی بی تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو۔"
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبردار سے کہا۔ "سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟"
نمبردار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکل آئے، اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔
اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آ گیا۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظروں میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔
قدرت اللّٰهَ شہاب
کتاب: شہاب نامہ
See more
10 August at 05:19
2 Reacts 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
9 August at 12:11
2 Reacts 4 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
اللہ جانے یہ ڈاکٹر صاحب آج کل کیا کرتے ہوں گے؟ 😂😂
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
9 August at 09:16
2 Reacts 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
اطلاعات کے مطابق ایک فلم تھیٹر میں ایک مختصر فلم دکھائی گئی جس کا آغاز کمرے کی چھت کے اسنیپ شاٹ سے ہوا۔  کوئی تفصیلات، کوئی رنگ نہیں۔ صرف ایک سفید چھت پر لگا پنکھا ۔
یہی منظر 6 منٹ تک جاری رہا جیسے یہ فلم رکھ گئی ہو ،  جب فلم دیکھنے والے مایوس ہونے لگے۔  کچھ نے شکایت کی کہ فلم پر اپنا وقت ضائع کر رہیں ہیں  اور کچھ نے واپس جانا شروع کر دیا۔
اچانک، کیمرے کا لینس آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگا یہاں تک کہ وہ نیچے فرش تک پہنچ گیا۔  ایک چھوٹا بچہ جو معذور دکھائی دے رہا تھا وہ بستر پر لیٹا تھا، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ، وہ ہل نہیں سکتا تھا ۔
اس کے بعد کیمرہ مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ واپس چھت تک فوکس کرتا ہے !
"ہم نے آپ کو اس بچے کی روزمرہ کی سرگرمی کے صرف 8 منٹ دکھائے، اس منظر سے صرف 8 فٹ کے فاصلے پر یہ معذور بچہ اپنی زندگی کے تمام گھنٹے گزارتا ہے اسی فوکس کے ساتھ ، اور آپ نے شکایت کر دی اور 6 منٹ تک صبر نہیں کیا، آپ برداشت نہیں کر سکے۔  یہ مسلسل دیکھنا .."
بعض اوقات ہمیں اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ وقتی طور پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ( اندھا ، بہرا ، گونگا معذور ، بے گھر وغیرہ وغیرہ)  تاکہ ہمیں عطا کی گئی نعمتوں کی وسعت کا احساس ہو اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جنکا شکر ادا کرنا اولین ترجیح ہے ۔
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
9 August at 08:20
2 Reacts 10 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
دو کوے، دو کہانیاں ۔۔۔۔///
پیارے دوستو ۔۔۔۔ کوے کا سیانا پن منفی اور مثبت دونوں ہی معنوں میں ڈسکس کیا جاتا ہے۔۔۔۔سکول کے نصاب میں ایک پیاسے مگر سمجھدار کوے کی کہانی خاصی متاثر کن تھی کہ کیسے وہ ایک برتن میں کنکریاں ڈالتے ڈالتے پانی کی سطح کو اتنا بلند کر لیتا ہے کہ اسکی چونچ بآسانی پہنچ سکے۔۔۔۔
سکول سے باہر بہت سے لوگوں سے یہ محاورہ بھی سننے کو ملتا تھا کہ سیانا کوا گندگی میں ہی چونچ مارتا ہے۔۔۔ یقیناً سکول کے نصاب میں اس محاورے کو شامل نہ کرنے کا واحد سبب یہی ہو گا کہ اسکی بدبو سے بچا جائے۔
اپنے عمران خان نیازی دو ہزار چودہ تک بحیثیت مجموعی ایک غیر متنازع قومی ہیرو تھے اور انہیں کھیل اور فلاحی منصوبوں کے حوالے سے انہیں انتہائی احترام اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔۔۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جناب اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے قوم کا پیار سمیٹتے رہتے اور اس وقت کا انتظار کرتے کہ جب فطری ارتقاء کے نتیجے میں انہیں اقتدار میں آنے کا کوئی باعزت اور جائز راستہ مل جاتا۔۔۔۔
یہ راستہ برتن میں کنکریاں ڈالنے والے کوے جیسا متاثر کن اور باعزت راستہ ہوتا مگر بدقسمتی سے موصوف نے دوسرے کوے کا راستہ اختیار کیا اور قدم قدم پہ گندگی میں چونچ ماری، گھٹیا ترین حربے استعمال ہی نہیں کئے بلکہ ایجاد بھی کئے ۔۔۔ ان تمام تر چالاکیوں کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔۔اور بذات خود انکے سامنے بھی۔۔۔۔
بھئی سچی بات ہے کہ مجھے تو وہ کنکریوں والا کوا پسند ہے، نہ کہ گندگی والا۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں اس بابت۔۔۔ ؟؟؟
😊😊😊😊😊
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
9 August at 08:16
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat

بڑا بے وقوف

بادشاہ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ سلطنت ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ''بے وقوف'' ہو ، ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ ۔
بادشاہ بھی ، بادشاہ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔۔۔ ﺧﯿﺮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ، ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺍ ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ ''بے وقوف'' ﮐﮯﻧﺎﻡ ﺳﮯ سینکڑوں ﻟﻮﮒ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ دیئے ﮔﺌﮯ۔ بادشاہ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ 'ﻓﺎﺋﻨﻞ ﺭﺍﺅﻧﮉ' ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ 'کامیاب بے وقوف' ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﯾﺎ ۔
بادشاہ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ قیمتی ہار ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ''بے وقوف'' ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ۔
ﻭﮦ ''بے وقوف'' اعزاز ﭘﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﻮﭦ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﮎ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ بے وقوف، بادشاہ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ۔ بادشاہ مرض الموت ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ بادشاہ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، بادشاہ ﻧﮯ اذنِ ملاقات بخش ﺩﯾﺎ۔ بے وقوف ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ، ''بادشاہ سلامت! ﺁﭖ ﻟﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ؟"
بادشاہ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ''ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﭨﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﻟﯿﭩﻨﺎ بھی ﺿﺮﻭﺭﯼ ہے۔۔۔!!!''
بے وقوف ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ ''ﻭﺍپس ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ؟؟؟؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ہے؟"
بادشاہ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ''ﮨﺎﮞ۔۔۔ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ہے۔''
بے وقوف ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ''ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﯾﻘﯿﻨﺎََ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻣﺤﻞ، ﺑﮍﮮ ﺑﺎﻏﯿﭽﮯ، ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ، ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﻣﺎﻥِ ﻋﯿﺶ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ہو ﮔﺎ۔!"
بادشاہ ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ۔ "بے وقوف" ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ بادشاہ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ بادشاہ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ہے ۔
ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ بادشاہ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮑﻠﯽ، ''ﻧﮩﯿﮟ ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ جھونپڑی ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ۔
بے وقوف ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﯿﺎ؟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ہے۔۔۔ ﺁﭖ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ سمجھدار ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﺁﭘﮑﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﻨﺎ ہے، ضرور انتظامی کیا ہوگا۔''
آہ۔۔۔!!!!
بادشاہ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺗﮭﺎ، ''ﺍﻓﺴﻮﺱ ۔۔۔ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔
بے وقوف ﺍﭨﮭﺎ، ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ بادشاہ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ:
''ﺗﻮ ﭘﮭﺮ حضور ، ﺍﺱ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ آپ ﮨﯿﮟ۔۔۔!!!"

سبق

انسان اس عارضی زندگی کے اونچے مقام پر پہنچنے کی ہر ممکن جدوجہد سے گریز نہیں کرتا، جو ہر ایک کیلئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے مگر دائمی زندگی کا اعلٰی مقام جو بڑی آسانی سے نہ سہی مگر کوشش سے ہر کوئی پا سکتا ہے۔

تلخ حقیقت

اپنی شاپنگ میں ہزاروں لگ جاتے ہیں جب اللہ کے لئے دینا ہو تو ہم لوگ جیب میں سکے ڈھونڈتے ہیں۔
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
8 August at 08:19
3 Reacts 12 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
تنہائی میں رونے کا اک وقت مقرر کر لیا جائے تو ہر وقت ہر بندے کے سامنے رونے دھونے سے بچا جا سکتا ہے،
اپنے غم اپنے اور اللہ کے درمیان رکھیں اس دنیا میں کوئی بھی مکمل خوش نہیں۔۔
حجاج بن یوسف کو کسی نے خبر دی کہ ایک شخص ہے جو 20 سال سے غلاف کعبہ کو پکڑ کی دعائیں مانگ رہا ہے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
حجاج اس آدمی کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ آدمی اندھا ہے اور اللہ سے آنکھیں مانگتا ہے
بیس سال گزرنے کے باوجود اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔
حجاج نے اس سے کہا: اللہ نے تجھے آنکھیں نہیں دیں لیکن اس کے علاوہ کچھ ایسی خاص چیز ضرور دی ہوگی جو آنکھوں کا نعم البدل ہوگی۔
اس نے جواب دیا: نہیں مجھے آنکھیں تو ملی نہیں لیکن نعم البدل بھی نہیں ملا۔
حجاج نے اس کو اپنی تلوار دیتے ہوئے کہا: اچھا! یہ میری تلوار رکھو۔ میں تین دن بعد یہیں کعبہ کے پاس آونگا ، اگر تیری آنکھیں واپس نہ آئی ہوئی ہوئیں تو تجھے قتل کردونگا۔
تین دن بعد جب حجاج واپس وہاں آیا تو اس شخص کی بینائی واپس آچکی تھی۔
حجاج نے کہا: اب تجھے معلوم ہوا کہ "دعا مانگنے" کا طریقہ کیا ہے؟؟
ہمارے ایک دوست کو ایک سال پہلے سرطان (کینسر) ہوا تھا۔
بتاتے ہیں کہ میں جس ہسپتال میں تھا وہاں ایک شخص آیا اس کو بھی سرطان تھا۔
ڈاکٹرز نے کہا: آپ کے علاج پر اتنا اتنا خرچہ آئیگا!!
اس نے کہا : میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔
کسی نے اس کو کہا کہ اللہ سے تہجد میں اٹھ کر مانگو، اللہ ضرور پیسوں کا انتظام کردیگا ۔
اس شخص نے نہ جانے کس طرح اللہ سے مانگا!
کہ چند دن بعد اس کا سرطان ہی ختم ہوگیا۔
ہسپتال والے حیران تھے کہ سارے ٹیسٹ کلیئر آگئے۔
میرے دوستو!! ممکن نا ممکن تو مخلوق کیلیئے ہے
اللہ کیلیئے تو سب ممکن ہی ممکن ہے۔
"کُن" کہا اور ہو گیا !!
کیا آپ کو معلوم ھے۔۔
کہ فرض نمازوں اور تہجد میں کیا فرق ھے
فرض نمازوں کے لیے انسان منادی (اذان) دیتاھے جبکہ تہجد کے لیے اللہ تعالٰی منادی دیتا ہے ۔ فرض نمازوں کے لیے ندا (اذان) کو تمام انسان سُنتے ہیں جبکہ تہجد کی ندا کو بعض خوش بخت انسان سُنتے ہیں ۔
فرض نماز کو بہیت سارے لوگ پڑھتے ہیں ۔ جبکہ تہجد کو اللہ تعالٰی کے خاص بندے پڑھتے ہیں ۔ فرض نماز کی پُکار ھے حیی علٰی الصلاتہ آو نماز کی طرف ۔
جبکہ تہجد کے لیے پُکار ھے ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا میں اس کو عطا کروں ۔۔
اے اللہ ھمیں تہجد کی محبت اور اسے پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔۔
See more
7 August at 10:41
1 React 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
امانتوں کی حفاظت اس طرح بھی کی جاتی ہے
سال ہے 1915۔ پہلی جنگ عظیم جاری ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی فوج کا ایک سپاہی، فلسطین میں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ اس کے پاس کچھ رقم ہے جو وہ امانتاً فلسطین کے العلول نامی ایک خاندان کے کسی شخص کے حوالے کرتا ہے، اس درخواست کے ساتھ کہ جب جنگ ختم ہو گی تو وہ واپس آ کر اپنی رقم لے لے گا۔ مگر فوجی کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔ نہ جانے جنگ میں کام آ گیا یا بعد میں جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔
العلول خاندان کے امانتدار شخص نے وہ رقم ایک سو چھ برس تک لوہے کی ایک مضبوط تجوری میں سنبھال کر رکھی۔ رقم کی مالیت تیس ہزار امریکی ڈالر کے قریب بتائی گئی ہے۔
گزشتہ برس کے آخر میں، نابلوس میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ترکی کے سفیر کو وہ رقم واپس کی گئی۔
تصویر میں نظر آنے والے صاحب، راغب ھیلمی العلول ہیں جن کے دادا کے بھائی کے پاس یہ امانت رکھوائی گئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ امانت راغب ھیلمی کے سپرد ہوئی تو انہوں نے بھی امانت کی  پاسداری کا حق ادا کر دیا۔ جب وہ اس کی حفاظت  کرتے کرتے تھک چکے تو فیصلہ کیا کہ رقم ترک حکومت کے حوالے کر دی جائے کیوں کہ اب رقم کے مالک کی واپسی کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے تھے۔
اللہ کریم ہمیں بھی اسی طرح کی امانت داری اور دیانتداری نصیب فرمائے آمین ثم آمین
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
30 July at 02:17
3 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک اہل تشیع اپنےمسلک کےاعتبارسےبڑےعلمی گھرانےسےتعلق رکھتاتھا۔
اس کےپاس کافی معلومات بھی تھیں ۔اس کےبقول میرے ان سوالات کا جواب کسی مولوی کےپاس نہیں ہے۔
میں نےاس سےجب ملاقات کی تو اسکی ہرہر ادا سے گویا علماء سے حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ سےبھی نفرت وحقارت کی جھلک واضح تھی۔
میں نے میزبان ہونے کی حیثیت سے بڑے اخلاق سےانہیں بٹھایا۔ تھوڑی دیر حال، احوال دریافت کرنے کےبعد گفتگو شروع ہوگئی۔
اس کاپہلاسوال ہی بزعم خود بڑا جاندار تھا اور وہ یہ کہ تم ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کونبیؐ کاخلیفہ کیوں مانتے ہو؟ ہم تو ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو خلیفۂ رسولؐ اسلیےنہیں مانتے کہ انہوں نے سیدہ کائنات، خاتون جنت کو ان کاحق نہیں دیاتھا۔ بلکہ ان کاحق غصب کرلیا تھا۔
میں نےکہا ذرا کھل کر بولیں جوآپ کہنا چاہ رہے ہیں اور اس حق کی وضاحت کردیں کہ وہ حق کیا تھا؟
کہنےلگا وہ، باغ فدک؛ جوحضورؐنےوراثت میں چھوڑا تھا۔ وہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کو ملنا تھا۔لیکن وہ باغ انہیں ابوبکرؓ نے نہیں دیا تھا۔
یہ صرف میرا دعوی ہی نہیں بلکہ میرے پاس اس دعوے پہ ہرمسلک کی کتابوں سے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں جنہیں آپ کا کوئی عالم جھٹلانہیں سکتا۔
یہ بات اس نےبڑے پر اعتماد اورمضبوط اندازمیں کہی۔
مزیداس نےکہاکہ میری بات کےثبوت کیلیےیہی کافی ہےکہ وہ باغ فدک ؛ آج بھی سعودی حکومت کے زیرتصرف ہے۔اوروہ حکومتی مصارف کیلیےوقف ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہےکہ آج تک آل رسولؐ کوان کاحق نہیں ملاہے۔
اب آپ ہی بتائیں جنہوں نےآل رسولؐ کےساتھ یہ کیا ہو ہم انہیں کیسےخلیفہ رسول تسلیم کرلیں؟؟؟
میں نےاسکی گفتگوبڑےتحمل سےسنی۔اوراس کااعتراض سن کرمیں نےپوچھاکہ آپ کاسوال مکمل ہوگیایاکچھ باقی ہے؟
وہ کہنےلگامیراسوال مکمل ہوگیاہےاب آپ جواب دیں۔
میں نےعرض کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدپہلاخلیفہ کن کومانتےہو؟؟؟
وہ کہنےلگاہم مولٰی علی ؑکوخلیفہ بلافصل مانتےہیں ۔
میں نےکہاکہ عوام وخواص کےجان ومال اورانکےحقوق کاتحفظ خلیفةالمسلمین کی ذمہ داری ہوتی ہےکسی اورکی نہیں۔مجھےآپ پرتعجب ہورہاہےکہ آپ خلیفہ بلافصل توحضرت علیؓ ؓکومان رہےہیں اوراعتراض حضرت ابوبکرپرکررہےہیں۔یاتوابوبکرؓ کوپہلاخلیفہ مانوپھرآپ کاان پراعتراض کرنےکاکسی حدتک جواز بھی بنتاہے ورنہ جن کو آپ پہلاخلیفہ مانتےہویہ اعتراض بھی انہی پرکرسکتےہوکہ آپ کی خلافت کےزمانےمیں خاتون جنت کاحق کیوں ماراگیا؟؟؟
میری بات سن کراسےحیرت کاایک جھٹکالگامگرساتھ ہی اس نےخودکوسنبھالتےہوئےکہا جی بات دراصل یہ ہےکہ ہمارےہاں مولیٰ علی ؑ کی خلافت ظاہری آپکے خلفاء ثلاثہ کےبعدشروع ہوتی ہےاس سےپہلےتوہم ان کی خلافت کوغصب مانتےہیں یعنی آپ کےخلفائےثلاثہ نےمولیٰ علی کی خلافت کوظاہری طورپرغصب کیاہوا تھا۔اسلیےمولاعلی تواس وقت مجبورتھے وہ یہ حق کیسےدےسکتےتھے؟۔
اس کی یہ تاویل سن کرمیں نےکہاعزیزم !میرے تعجب میں آپ نےمزیداضافہ کردیاہے ایک طرف توآپ کایہ عقیدہ ہے کہ مولاعلیؓ مشکل کشاہیں۔عجیب بات ہےکہ انہیں کے گھر کی ایک کےبعددوسری مشکل آپ نےذکرکردی یعنی ان کی زوجہ محترمہ کاحق ماراگیا لیکن وہ مجبورتھےاوروہ مشکل کشاہونےکے باوجود ان کی مشکل کشائی نہ کرسکے۔پھران کااپناحق (خلافت)غصب ہوالیکن وہ خوداپنی مشکل کشائی بھی نہ کرسکے۔یاتوان کی مشکل کشائی کاانکارکردواوراگرانہیں مشکل کشامانتےہوتویہ من گھڑت باتیں کہناچھوڑدو کہ طاقتوروں نےان کےحقوق غصب کرلیےتھے۔
دوسری بات یہ ہےکہ اگربالفرض والمحال آپ کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائےکہ اصحاب ثلاثہ نےان کی خلافت غصب کرلی تھی،اب سوال یہ ہےکہ خلفاءثلاثہ کےبعدجب حضرت علی ؓ کوظاہری خلافت مل گئی اوران کی شہادت کےبعدانہی کےصاحبزادےحضرت حسن ؓ خلیفہ بنےتوکیااس وقت انہوں نےباغ فدک لےلیاتھا؟؟؟
جب آپ کےبقول وہ خلفاء ثلاثہ کےزمانےمیں غصب کیاگیاتھا،اب توانہی کی حکومت تھی جن کاحق غصب کیاگیا۔لیکن انہوں نےاپنی حکومت ہونےکےباوجوداس حق کوکیوں چھوڑدیاتھا؟۔آج بھی آپ کےبقول وہ سعودی  حکومت کےکنٹرول میں ہے تو بھائی وہ باغ جن کاحق تھاجب انہوں نےچھوڑ دیاہےتوآپ بھی اب مہربانی کرکےان قصوں کوچھوڑدیں اوراگرآپ کااعتراض حضرت ابوبکرپرہےکہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کوباغ فدک کیوں نہیں ملا؟تویہی اعتراض آپ کاحضرت علی پربھی ہوگاکہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کوباغ فدک کیوں نہیں ملا؟؟؟
میری بات سن کہ وہ کچھ سوچنےلگامگرمیں نےاسی لمحہ اس پرایک اور سوال کردیاکہ آپ یہ بتائیں کہ وراثت صرف اولادکوہی ملتی ہےیابیویوں اوردوسرے ورثاءکوبھی ملتی ہے؟؟؟
کہنےلگا۔۔۔بیویوں اوردوسرےورثاء کوبھی ملتی ہے۔
میں نےکہاپھرآپ کااعتراض صرف حضرت فاطمہؓ کےبارےکیوں ہے؟حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کےبارے آپ نےکیوں نہیں کہاکہ انہیں بھی وراثت سےمحروم رکھاگیاہے۔اورآپ جانتےہیں کہ ازواج مطہرات میں حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ اورحضرت عمرؓکی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓبھی ہیں۔آپ نےخلفاء رسول پریہ الزام دھرنےسےپہلےکبھی نہیں سوچاکہ اگرانہوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت نہیں دی تواپنی صاحبزادیوں کوبھی تواس سےمحروم رکھاہے۔
میری گفتگوسن کراب وہ مکمل خاموش تھا۔ساتھ ہی وہ گہری سوچ میں ڈوباہوابھی معلوم ہوا۔
میں نےاسےپھرمتوجہ کرتے ہوئےکہاکہ عزیزم !کب تک ان پاک ہستیوں کےبارےبدگمانی پیداکرنےوالی بےسروپاجھوٹی باتوں کی وجہ سےحقائق سےآنکھیں بندکرکےرکھوگے؟۔
آ۔۔۔۔اب میں تمہیں وہ حقیقت ہی بتادوں جس کی وجہ سےحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت آپؐ کےکسی  وارث کونہیں دی گئی۔وہ خودجناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے
نحن معشرالانبیاء لانرث ولانورث،ماترکناصدقة
یعنی ہم انبیاء دنیاکی وراثت میں نہ کسی کےوارث بنتےہیں اورنہ کوئی ہماراوارث بنتاہے۔ہم جومال وجائیدادچھوڑتےہیں وہ امت پرصدقہ ہوتاہے۔
میں نےاسےکہاعزیزم! یہ وہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ سےلےکرحضرت علیؓ اورحضرت حسنؓ تک کسی بھی خلیفہ نے؛باغ فدک؛ آل رسول کاحق نہیں سمجھا جسے لےکرآج آپ ان کےدرمیان نفرتیں ڈالنےکی کوشش کررہےہیں۔
نوجوان اب میری گفتگوسن کرپریشان اورنادم محسوس ہونےلگا۔پھرانتہائی عاجزی سےاس نےمجھےدیکھااورگویاہوا۔آپ کابہت بہت شکریہ آپ نےمیری آنکھیں کھول دیں۔آج سےمیں اس طرح کےاعتراضات کرنےسےتوبہ کرتاہوں۔اب میں رب تعالی سےبھی وعدہ کرتاہوں کہ آئندہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہؓ کےبارےمیں اپنی سوچ کومثبت بناوں گا۔
میں نےاس نوجوان کومبارک دی اورایک محبت سےبھرپورمعانقہ ومصافحہ ہوا۔
پھروہ نوجوان شکریہ اداکرتےہوئےچلاگیا۔
والسلام ۔۔۔۔{منقول}
🌹یہ جو پوسٹ آپ نے پڑھ لی ہے میرےدوستوں اوربہن بھاٸیوں ، یہ ایک لاجواب کالم اورہزاروں کتابوں سے زیادہ پُرمغز مدلّل مضمون ہے براہ کرم اس کواتناپھیلادیجیے کہ حق و سچ ہر ایرے غیرے پر بھی واضح
ہوجائیں۔ لہٰذا آپ کی ایک کلک دوسرے کی رہنمائی کاباعث بن سکتی ہے!!!
اسلام اورمعاشرہ کے ساتھ منسلک رہیں!!
مرکز اصلاح
See more
29 July at 14:12
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
UGC - Thear - Facebook
Facebook
1.5M views, 89K likes, 980 comments, 8.2K shares, Facebook Reels from geetadevera74: . Lata Mangeshk
29 July at 07:10
2 Reacts 3 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
UGC - Thear - Facebook
Facebook
1.5M views, 89K likes, 980 comments, 8.2K shares, Facebook Reels from geetadevera74: . Lata Mangeshk
29 July at 07:09
1 React 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
قرآن کی یہ آیت مجھے بہت سوچنے پر مجبور کرتی ہے
یہ خوردبین کا فنگر پرنٹ ہے! لائنوں کو اچھی طرح سے دیکھیں، اس کے بارے میں سوچیں کہ انہیں مختلف نمونوں میں کس نے ترتیب دیا!
وہ خالق، عظیم اللّٰه جو اربوں انسانوں کی انگلیوں کے ڈیزائن کو 1 انچ کی تھوڑی سی جگہ میں مختلف انداز میں ترتیب دے سکتا ہے۔
"کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اُس کی ہڈیوں کو جو مرنے کے بعد ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گئ ہرگز اکٹھا نہ کریں ، کیوں نہیں ہم تو اس بات پر بھی قدر ہیں کہ اُس کی انگلیوں کے ایک ایک جوڑ اور پوروں تک کو درست کر دیں
۔" (سورۂ القیامۃ‘: 3-4)
قرآن تو ہمیشہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہے
قرآن کریم نشانیاں ہیں غور کرنے والوں کے لئے
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
29 July at 04:07
1 React 37 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
بہت کم سندھی ہوں گے جن کے نام میں ذات شامل  نہ ہو. حتیٰ کہ پیشوں کے حوالے سے کمتر سمجھی جانے والی وہ ذاتیں جنہیں پنجاب میں لوگ چھپاتے ہیں، وہ بھی ضرور لکھی جاتی ہیں کیونکہ کوئی ذات نہ ہونا "ولدیت نامعلوم" جیسی بات سمجھا جاتا ہے.
اسی رِیت کی وجہ سے سندھ میں آباد پنجابی بھی نام کے ساتھ ذات لکھتے ہیں. ذات برادری کی بنیاد پر ان کی تنظیمیں بھی ہیں اور ان کے سربراہ بھی. برادری سسٹم عام طور پر پسندیدہ نہیں لیکن فائدوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا.
کوووڈ/کورونا  کی وبا کے دنوں میں ایک نام بہت سنا گیا. جسے کوئی دوا نہ ملتی یا اتنی مہنگی کہ وہ خرید نہ سکتا تو کہا جاتا کہ بریگیڈیئر بشیر ارائیں سے رابطہ کریں. وہ دوا گھر بھجوا دیں گے. ہزاروں لوگوں کو انہوں نے دوائیں پہنچائیں. دراصل بریگیڈیئر بشیر نے آرمی میڈیکل کور سے ریٹائر ہونے کے بعد کوئی اور سرکاری افسری لینے کی بجائے دواؤں کا کاروبار شروع کردیا تھا اور انہیں پتہ تھا کہ بے ایمان لوگ 6 روپے میں پڑنے والا ٹیکہ ڈیڑھ دو ہزار میں بیچ رہے ہیں. اس لیےغریبوں کی مدد کا یہ بہت اچھا موقع ہے. پھر انہوں نے انتہائی غریب مریضوں کو دو ہفتے کا راشن بھی پہنچانا شروع کردیا. دواؤں کے بزنس کے سیٹھ ان کے دشمن ہوگئے. اسی دوران کور کمانڈر نے انہیں چائے پر بلالیا. ان کے کام کی تعریف کی لیکن یہ بھی پوچھ لیا کہ اتنا سرمایہ کہاں سے آرہا ہے. انہوں نے کہا ایسے کام کیلئے سرمائے سے زیادہ اچھی نیت اور توکل کی ضرورت ہوتی ہے. یہ پڑھ کر مجھے تو حیرت ہوئی کہ بریگیڈیئر بشیر فاؤنڈیشن کا کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں جس میں ڈونیشنز آتی ہوں. لیکن لوگ ان سے لڑتے تھے کہ نیکی کےکام میں ہمیں کیوں نہیں شریک کرتے. ایسے لوگوں نے دواؤں اور انجکشنوں کے ڈھیر لگوادیئے. ڈاکٹر بشیر نے تھر میں سولر پاور والے پانچ کنویں اپنے پیسوں سے بنوائے تو 70 کنووں کیلئے پیسے ان کے دوستوں رشتے داروں اور دوسرے لوگوں نے فراہم کردئیے. انہیں یاد ہے کہ ان کے والد کی ریڑھ کی ہڈی میں خرابی تھی تو انہیں کراچی لے جانے کیلئے ایمبولینس کے پیسے ان کے پاس نہیں تھے، عام بس میں لٹا کر لے گئے تھے. اس لیے نواب شاہ کے مریضوں کیلئے انہوں نے ایمبولینس فراہم کردی ہے.
ڈاکٹر بشیر ضلع نواب شاہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک غریب ارائیں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. چار چار میل پیدل چل کر سکول جاتے رہے. غربت سے نجات کیلئے سخت محنت کی، تعلیمی اخراجات کیلئے کراچی سے سامان لاکر ایک ایک دکان جاکر بیچا، ڈاکٹر بنے، فوج میں گئے، بریگیڈیئر کے رینک تک ترقی پائی. ریٹائر ہوئے تو کاروبار کے ساتھ خدمت خلق کیلئے بریگیڈیئر بشیر فاؤنڈیشن قائم کیا. اتنی محبت اور عزت ملی کہ سندھ کی ارائیں برادری نے انہیں اپنا سردار چن لیا. اس برادری اور سرداری سسٹم کے مثبت پہلو کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں اسی برادری کی ایک خاتون کراچی میں  ان کے دفتر آئی اور بتایا کہ اس کی طلاق ہوگئی ہے. تین سال سے عدالت کے چکر لگارہی ہے کہ سابق شوہر جہیز کا سامان واپس کرے. شوہر نے تنگ کرنے کیلئے بچی کی کسٹڈی کا کیس کر رکھا ہے. بچی دل کی مریضہ ہے اس کیلئے ہسپتالوں کے چکر الگ لگا لگا کر خجل خوار ہورہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی طرح اس کے شوہر کو بلالیا. پہلے تو وہ اکڑا کہ بریگیڈیئر ہیں تو اپنے گھر میں ہوں گے. ہمارا معاملہ عدالت میں ہے وہ فیصلہ کرے گی. بریگیڈیئر نہیں، برادری کا سردار ہونے کی حیثیت سے میں تم دونوں کا بزرگ ہوں. میرے لیے دونوں ایک جیسے ہو. عدالتی چکروں میں پڑے ہوئے لوگ تنگ تو آ ہی چکے ہوتے ہیں بس انا کا مسئلہ رکاوٹ بنا ہوتا ہے. دونوں نے مان لیا کہ ڈاکٹر صاحب کا فیصلہ انہیں قبول ہوگا. ڈاکٹر صاحب نے خود ہی صلح نامہ ٹائپ کیا، گواہ اور ضامن بنے. شوہر نے سامان واپس کیا اور بیوی نے اسے بچی کو اپنے گھر لے جانے اور دادا دادی سے ملانے کی اجازت دے دی. شوہر نے بچی کا خرچہ دینا بھی مان لیا.
اگلے دن  اس خاتون نے ڈاکٹر صاحب کو فون کرکے کہا رات مجھے برسوں بعد سکون کی نیند آئی ۔ کاش ہمارے کوٸی بزرگ آپکی طرح بڑوں والا کردار ادا کرتے تو شاید میری طلاق بھی نہ ہوتی ۔ لڑکا بھی شکریہ ادا کرنےآفس آیا ۔ بتایا  کہ صرف ملیرکورٹ میں 350 باپوں کا ایک گروپ بنا ہوا ہے جو اسی طرح کے مقدمے کیے بیٹھے ہیں. میرا صلح نامہ پڑھ کر ان میں سے کٸی لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ بھی اسی طرح کورٹ سے باہر باہر کروا دیں۔
ڈاکٹر بشیر ارائیں نے دواؤں کی ڈسٹری بیوشن کے بڑے کاروبار کے ساتھ اب ایک یونیورسٹی قائم کرنے کی منظوری لے لی ہے. یہ بھی آج کل ایک بڑا کاروبار ہے. دیکھنا ہوگا کہ وہ اسے کاروبار کے طور پر چلاتے ہیں یا خدمت خلق کیلئے.
انہوں نے اپنا زندگی نامہ یا آپ بیتی "خاک سا خاکی" کے عنوان سے لکھی ہے. پڑھ کر لگتا تو یہ ہے کہ وہ اپنی خاک سے ہمیشہ جڑے رہے ہیں. کتاب میں ان کے گاؤں ڈھولے والی گوٹھ سے لیاقت میڈیکل کالج، قائداعظم یونیورسٹی، سب سے زیادہ درجہ حرارت والے مقام چھور سے چترال، خلیجی جنگ، صومالیہ، بوسنیا میں اقوام متحدہ مشن میں کام کے دوران پیش آنے والے سیکڑوں دلچسپ واقعات شامل ہیں.
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
28 July at 03:07
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
1987ء میں امریکی شہری سٹیون روتھسٹین نے امریکن ایئر لائنز کی پرکشش پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گولڈن ٹکٹ خرید لیا ۔ جس کی قیمت $250,000 تھی۔
اس گولڈن ٹکٹ کے ذریعے امریکن ایئر لائن سے دنیا بھر میں فرسٹ کلاس سفر مفت کیا جاسکتا تھا اور وہ بھی تاحیات.
اس کے علاوہ اس ٹکٹ کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ گولڈن ٹکٹ کا مالک جب بھی چاہے وہ اپنے ساتھ کسی بھی ایک شخص کو سفر پر مفت لے جاسکتا ہے، اور دوسرے شخص کے لیے اس ٹکٹ کی قیمت $150,000 تھی اس نے گولڈن ٹکٹ کے ساتھ یہ ٹکٹ بھی خرید لیا ۔
پھر ہوا یوں کہ اسٹیو نے اسی گولڈن ٹکٹ پر 10,000 سے زیادہ بار ہوائی سفر کیا ۔
کبھی اس کا دل کرتا کہ فلاں ملک کے کسی خاص اور مشہور ریستوران کا سینڈوچ کھایا جائے، یا کسی دور دراز کے ملک میں بننے والی مشہور برانڈ کی آئسکریم وہاں جاکر کھائی جائے،
کبھی کبھی وہ صبح سویرے کینیڈا کا سفر کر کے کینیڈا سے بیوی کی پسند کا کھانا خریدتا جو محض 50 ڈالر کا ہوتا تھا. اور دوپہر کے کھانے سے پہلے واپس بھی آجاتا تھا
صرف جولائی 2004 میں اس نے 18 ممالک کا سفر کیا۔
اور وہ ہمیشہ کہتا تھا:
میں کسی بھی وقت دنیا کے کسی بھی کونے میں جاسکتا ہوں.
صرف 2008 تک
(تقریباً 20 سال):
سٹیو نے 10,000 بار سفر کیا تھا۔
اور یہ سارا سفر 10 ملین میل کا فضائی سفر بنتا تھا۔
40 ملین فلائٹ پوائنٹس حاصل کئے۔
انگلینڈ کا 500 بار سفر کیا
آسٹریلیا کا 70 بار سفر کیا
ٹوکیو کا 120 بار سفر کیا۔
اس اسکیم سے امریکی ایئرلائنز کو فقط ایک شخص اور ایک ٹکٹ کی وجہ سے 21 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
کمپنی اس سے نالاں تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ اور ردعمل بھی سخت ہوتا گیا.
ٹکٹ کے ایسے استعمال اور پہنچنے والے نقصان سے فضائی کمپنی اس کے گولڈن ٹکٹ کو کسی بھی طرح روکنے یا ختم کرنے کے لیے پرعزم ہوچکی تھی ۔
13 دسمبر 2008ء کو
وہ حسب معمول اپنے ایک دوست کے ساتھ سفر کے لیے ایئرپورٹ آیا.
تو اسے ائیرپورٹ پر سیکیورٹی اور جہاز کے عملے نے روک لیا، اور اسے مطلع کرتے ہوئے کہا، اس کا ٹکٹ اب ناقابل استعمال ہوچکا ہے، اور کمپنی نے اس کا اکاؤنٹ بند کردیا ہے ۔
یہ سٹیو کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔
اپنے دوست سے اس نے معذرت کی، اور سخت صدمے کی حالت میں گھر واپس آگیا، وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور کئی دنوں تک سو نہ سکا۔
چند دن بعد اسے خیال آیا کہ، امریکن ایئرلائنز پر مقدمہ کرنا چاہیے کہ ایک تو اس کی ہتک ہوئی تھی اور دوسرا ایرلائن نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی تھی ۔
اس نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا، اور شکایت میں لکھا کہ امریکہ آزادی، انصاف اور جمہوریت کا علمبردار ملک ہے. اور امریکن ائرلائن نے اسے اس کے پسندیدہ مشغلے (سفر) سے دور رکھ کر جہاں اس کی شخصی آزادی پر قدغن لگائی ہے، وہاں پر ہی ناانصافی کی وجہ سے اس کی زندگی برباد ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایرلائن کمپنی اپنے وعدوں سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے، زیادتی اور ناانصافی کی مرتکب ہوئی ہے. ٹکٹ کینسل کرنے والے عہدیداران اور ذمہ داران نے، ایرلائن کمپنی، عوام اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سراسر دانستہ کوشش کی ہے. اس کی ابتر ذہنی حالت کی وجہ کمپنی کا غلط فیصلہ ہے، لہٰذا میں کمپنی پر ہرجانے کا دعویٰ کرتا ہوں، اور عدالت سے استدعا کرتا ہوں کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے.
گولڈن ٹکٹ کی شرائط و ضوابط کے مطابق کمپنی کا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور سٹیون روتھسٹین کو 3 ملین ڈالر کا ہرجانہ اد کیا گیا۔ اور ساتھ ساتھ اس کا تاحیات سفری گولڈن ٹکٹ بھی بحال کر دیا گیا.
See more
Image uploaded by Mussarat Hussain (@Mussarat) on Thear
26 July at 14:36
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
26 July at 05:04
1 React 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔۔
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں
انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھلی
جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیا
اور جلد ہی  آپ نے  قرآن پاک  حفظ کر لیا
اس کے بعد آپکے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہو
جبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی
آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا
اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے
آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا
اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراء کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس و تدریس سے بھی منسلک تھے
ایک دن آپ گھر سے باہر کہیں جا رہے تھے جب ایک شخص نے اپکو روک کے آپ سے پوچھا
کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زیارت ہوئی؟؟
اس شخص کا یہ سوال کرنا امام بوصیری کی زندگی کو بدلنے کا سبب بن گیا
اب امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بغور  مطالعہ شروع کر دیا
آپ جوں جوں مطالعہ کرتے جارہے تھے آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی جا رہی تھی
جوں جوں وقت گزر رہا تھا آپ کے  دل میں نبی آخر الزماں  محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی
اسی دوران میں انہیں فالج کا حملہ ہوا اور یہ صاحب فراش ہو گئے۔اسی حالت میں پندرہ سال گزر گئے
وہ بادشاہ جن کے قصیدے امام بوصیری لکھتے تھے انہوں نے پلٹ کے نہ پوچھا
آپ بہت دل گرفتگی کے عالم میں ایک رات لیٹے ہوئے تھے۔جب آپ نے سوچا کہ زندگی بھر دنیا کے بادشاہوں کے قصیدے لکھے آج کیوں نہ ان کا قصیدہ لکھوں جن کے سامنے ان بادشاہوں کی کوئی اوقات نہیں
جب ٹوٹے ہوے دل سے ، سچی محبت کے ساتھ الفاظ نکلے تو وہ اس بارگاہ میں مقبول ہوگئے جس کے بعد وہ الفاظ امر ہو گئے
اس سے پہلے بھی امام بوصیری نے عرب کے صحراؤں پہ، صحراؤں کے خیموں پہ اور خوش جمال چہروں پہ شاعری لکھی
لیکن اس رات وہ اس بدرالدجی،شمس الضحی کی شان بیان کر رہے تھے جن کی خاطر رب نے اس دنیا اور اسکی ہر چیز کو تخلیق فرمایا۔ میرا ایمان یہ ہے کہ یہ کلام  بھی رب  کی ہی دین ہے اور وہی رب ہی اسے انسان  پہ اتارتا ہے
جب آپ قصیدہ لکھ چکے تو آپ نے قلم دوات رکھی اور سو گئے
اسی رات  آپ نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں ہیں اور فرمایا کہ
اٹھ بوصیری،،
امام بوصیری نے کہا
،، میں ہزار جانوں سے قربان لیکن کیسے اٹھوں،،
کیونکہ وہ فالج زدہ تھے اور اٹھنے سے قاصر تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت ان کے جسم پہ پھیرا اور فرمایا
،،اٹھ اور مجھے وہ سنا جو تو نے لکھا،،
امام بوصیری اٹھ بیٹھے اور  جھوم جھوم کے سنا رہے
مولا یا صلی وسلم۔۔۔ دایما ابا دا
اے اللہ۔ آپ دائمی اور ابدی سلامتی بھیجئے اپنے محبوب پہ
میری آنکھیں آپ کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور رواں دواں ہیں
مدینہ پاک سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔اندھیری رات میں بجلی چمک رہی ہے
میرے عشق کا تذکرہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب میرا راز محبت بھی نہیں چھپ سکتا اور نہ ہی میرا مرض ختم ہو گا
تیری محبت کی،   میرے آنسو اور میری بیماری گواہی دے رہے ہیں۔میں اپنے عشق کو کیسے چھپا سکتا ہوں
اے دل۔ اگر تو  حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عاشق نہیں تو مکہ کو دیکھ کے آنسو کیوں بہاتا ہے
کیا محبت میں رونے والا عاشق خیال کرتا ہے کہ بہتے آنسوؤں اور سوختہ دل کی آڑ میں محبت کا راز چھپا پاے گا
تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے کہ تو انہیں آنسو روکنے کیلئے کہتا ہے اور یہ  بہائے جا رہی ہیں
تیرے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ سنبھلنے کی بجاے مزید غمناک ہو رہا ہے
جب رات مجھے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال آیا تو میں رات بھر جاگتا رہا۔
درد محبت نے میرے چہرے پہ آنسو اور رخساروں پہ  زردی پیدا کر دی ہے
اے غریبوں کا خیال رکھنے والے
اے دل گیروں کی دلجوئی کرنے والے
اے مظلوموں کا ہاتھ پکڑنے والے
اے سچ کہنے والے
سے گناہگاروں کا پردہ رکھنے والے
اے ازل کا نور
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔آپکے منہ میں آپ کے دانت ایسے ہیں جیسے سیپ کے اندر قیمتی موتی
اے اللہ آپ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہ ابدی اور دائمی سلامتی نازل فرمائیں
اب امام بوصیری جھوم جھوم کے پڑھ رہے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محبت کو قبول فرماتے ہوئے ان کے ساتھ سن رہے ہیں
جب قصیدہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوے کہ انہوں  نے اپنی چادر(بردہ) اتار کے انہیں مرحمت فرمائی
اس کے ساتھ ہی انکی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو چادر ان کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی
وقت دیکھا تو تہجد کا وقت تھا
امام بوصیری پندرہ سال کے بعد ہشاش بشاش صحت مند اٹھے ۔ فالج کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا کہ تہجد ادا کریں
گھر سے نکلے تو ایک فقیر نے آواز لگائی
،،ہمیں بھی تو سناؤ وہ قصیدہ،،
امام  بوصیری نے تجاہل عارفانہ سے کہا
کونسا؟؟
وہی جس کے بدلے یہ بردہ بھی ملا
مجذوب نے چادر کی طرف اشارہ کیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
اس قصیدے میں 100 سے اوپر اشعار ہیں اور کسی شعر میں لفظ ،، بردہ،، استعمال نہیں ہوا
لیکن جو چادر آپ کو دی گئی اس کی مناسبت سے اس کا نام قصیدہ بردہ شریف زبان زد خاص و عام ہوا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرف قبولیت سے نوازا تو آج تک اس کا ورد جاری ہے.
نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
See more
25 July at 14:53
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
سورۂ یوسف پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ:
سگّے حسد کر سکتے ہیں۔
اپنے ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں۔
غیر نجات دِلا سکتے ہیں۔
پارسا پر تُہمت لگائی جا سکتی ہے۔
بِلا جُرم قید ہو سکتی ہے۔
غیبی مدد سے براءت مِل سکتی ہے۔
ظُلم سہہ کر عظیم منصب مِل سکتا ہے۔
تقویٰ سے عزت کا حصول ہو سکتا ہے۔
عزیز جُدا ہو سکتا ہے اور ہِجر کاٹا جا سکتا ہے۔
بِچھڑا مِل سکتا ہے اور ہر خواب پورا ہو سکتا ہے۔
قُرآن کی اِس سورہ میں کیا کشش ہے، کیسی جاذبیت ہے، کیسا دِلکش اسلوب حسین بیان ہے، کیا فصاحت و بلاغت ہے، کِتنا تسلی کِتنا سبق ہے، کیسی نصیحتیں ہیں، اورکِس قدر قوی اُمیدیں ہیں۔۔۔
"بے شک ہر مُشکل کے ساتھ آسانی ہے." (القرآن)
See more
25 July at 12:00
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔۔
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں
انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھلی
جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیا
اور جلد ہی  آپ نے  قرآن پاک  حفظ کر لیا
اس کے بعد آپکے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہو
جبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی
آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا
اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے
آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا
اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراء کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس و تدریس سے بھی منسلک تھے
ایک دن آپ گھر سے باہر کہیں جا رہے تھے جب ایک شخص نے اپکو روک کے آپ سے پوچھا
کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زیارت ہوئی؟؟
اس شخص کا یہ سوال کرنا امام بوصیری کی زندگی کو بدلنے کا سبب بن گیا
اب امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بغور  مطالعہ شروع کر دیا
آپ جوں جوں مطالعہ کرتے جارہے تھے آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی جا رہی تھی
جوں جوں وقت گزر رہا تھا آپ کے  دل میں نبی آخر الزماں  محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی
اسی دوران میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور یہ صاحب فراش ہو گئے۔اسی حالت میں پندرہ سال گزر گئے
وہ بادشاہ جن کے قصیدے امام بوصیری لکھتے تھے انہوں نے پلٹ کے نہ پوچھا
آپ بہت دل گرفتگی کے عالم میں ایک رات لیٹے ہوئے تھے۔جب آپ نے سوچا کہ زندگی بھر دنیا کے بادشاہوں کے قصیدے لکھے آج کیوں نہ ان کا قصیدہ لکھوں جن کے سامنے ان بادشاہوں کی کوئی اوقات نہیں
جب ٹوٹے ہوے دل سے ، سچی محبت کے ساتھ الفاظ نکلے تو وہ اس بارگاہ میں مقبول ہوگئے جس کے بعد وہ الفاظ امر ہو گئے
اس سے پہلے بھی امام بوصیری نے عرب کے صحراؤں پہ، صحراؤں کے خیموں پہ اور خوش جمال چہروں پہ شاعری لکھی
لیکن اس رات وہ اس بدرالدجی،شمس الضحی کی شان بیان کر رہے تھے جن کی خاطر رب نے اس دنیا اور اسکی ہر چیز کو تخلیق فرمایا۔ میرا ایمان یہ ہے کہ یہ کلام  بھی رب  کی ہی دین ہے اور وہی رب ہی اسے انسان  پہ اتارتا ہے
جب آپ قصیدہ لکھ چکے تو آپ نے قلم دوات رکھی اور سو گئے
اسی رات  آپ نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں ہیں اور فرمایا کہ
اٹھ بوصیری،،
امام بوصیری نے کہا
،، میں ہزار جانوں سے قربان لیکن کیسے اٹھوں،،
کیونکہ وہ فالج زدہ تھے اور اٹھنے سے قاصر تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت ان کے جسم پہ پھیرا اور فرمایا
،،اٹھ اور مجھے وہ سنا جو تو نے لکھا،،
امام بوصیری اٹھ بیٹھے اور  جھوم جھوم کے سنا رہے
مولا یا صلی وسلم۔۔۔ دایما ابا دا
اے اللہ۔ آپ دائمی اور ابدی سلامتی بھیجئے اپنے محبوب پہ
میری آنکھیں آپ کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور رواں دواں ہیں
مدینہ پاک سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔اندھیری رات میں بجلی چمک رہی ہے
میرے عشق کا تذکرہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب میرا راز محبت بھی نہیں چھپ سکتا اور نہ ہی میرا مرض ختم ہو گا
تیری محبت کی،   میرے آنسو اور میری بیماری گواہی دے رہے ہیں۔میں اپنے عشق کو کیسے چھپا سکتا ہوں
اے دل۔ اگر تو  حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عاشق نہیں تو مکہ کو دیکھ کے آنسو کیوں بہاتا ہے
کیا محبت میں رونے والا عاشق خیال کرتا ہے کہ بہتے آنسوؤں اور سوختہ دل کی آڑ میں محبت کا راز چھپا پاے گا
تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے کہ تو انہیں آنسو روکنے کیلئے کہتا ہے اور یہ  بہائے جا رہی ہیں
تیرے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ سنبھلنے کی بجاے مزید غمناک ہو رہا ہے
جب رات مجھے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال آیا تو میں رات بھر جاگتا رہا۔
درد محبت نے میرے چہرے پہ آنسو اور رخساروں پہ  زردی پیدا کر دی ہے
اے غریبوں کا خیال رکھنے والے
اے دل گیروں کی دلجوئی کرنے والے
اے مظلوموں کا ہاتھ پکڑنے والے
اے سچ کہنے والے
اے گناہگاروں کا پردہ رکھنے والے
اے ازل کا نور
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔آپکے منہ میں آپ کے دانت ایسے ہیں جیسے سیپ کے اندر قیمتی موتی
اے اللہ آپ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہ ابدی اور دائمی سلامتی نازل فرمائیں
اب امام بوصیری جھوم جھوم کے پڑھ رہے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محبت کو قبول فرماتے ہوئے ان کے ساتھ سن رہے ہیں
جب قصیدہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوے کہ انہوں  نے اپنی چادر(بردہ) اتار کے انہیں مرحمت فرمائی
اس کے ساتھ ہی انکی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو چادر ان کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی
وقت دیکھا تو تہجد کا وقت تھا
امام بوصیری پندرہ سال کے بعد ہشاش بشاش صحت مند اٹھے ۔ فالج کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا کہ تہجد ادا کریں
گھر سے نکلے تو ایک فقیر نے آواز لگائی
،،ہمیں بھی تو سناؤ وہ قصیدہ،،
امام  بوصیری نے تجاہل عارفانہ سے کہا
کونسا؟؟
وہی جس کے بدلے یہ بردہ بھی ملا
مجذوب نے چادر کی طرف اشارہ کیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
اس قصیدے میں 100 سے اوپر اشعار ہیں اور کسی شعر میں لفظ ،، بردہ،، استعمال نہیں ہوا
لیکن جو چادر آپ کو دی گئی اس کی مناسبت سے اس کا نام قصیدہ بردہ شریف زبان زد خاص و عام ہوا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرف قبولیت سے نوازا تو آج تک اس کا ورد جاری ہے.
نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
See more
25 July at 03:46
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔۔
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں
انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھلی
جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیا
اور جلد ہی  آپ نے  قرآن پاک  حفظ کر لیا
اس کے بعد آپکے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہو
جبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی
آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا
اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے
آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا
اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراء کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس و تدریس سے بھی منسلک تھے
ایک دن آپ گھر سے باہر کہیں جا رہے تھے جب ایک شخص نے اپکو روک کے آپ سے پوچھا
کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زیارت ہوئی؟؟
اس شخص کا یہ سوال کرنا امام بوصیری کی زندگی کو بدلنے کا سبب بن گیا
اب امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بغور  مطالعہ شروع کر دیا
آپ جوں جوں مطالعہ کرتے جارہے تھے آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی جا رہی تھی
جوں جوں وقت گزر رہا تھا آپ کے  دل میں نبی آخر الزماں  محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی
اسی دوران میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور یہ صاحب فراش ہو گئے۔اسی حالت میں پندرہ سال گزر گئے
وہ بادشاہ جن کے قصیدے امام بوصیری لکھتے تھے انہوں نے پلٹ کے نہ پوچھا
آپ بہت دل گرفتگی کے عالم میں ایک رات لیٹے ہوئے تھے۔جب آپ نے سوچا کہ زندگی بھر دنیا کے بادشاہوں کے قصیدے لکھے آج کیوں نہ ان کا قصیدہ لکھوں جن کے سامنے ان بادشاہوں کی کوئی اوقات نہیں
جب ٹوٹے ہوے دل سے ، سچی محبت کے ساتھ الفاظ نکلے تو وہ اس بارگاہ میں مقبول ہوگئے جس کے بعد وہ الفاظ امر ہو گئے
اس سے پہلے بھی امام بوصیری نے عرب کے صحراؤں پہ، صحراؤں کے خیموں پہ اور خوش جمال چہروں پہ شاعری لکھی
لیکن اس رات وہ اس بدرالدجی،شمس الضحی کی شان بیان کر رہے تھے جن کی خاطر رب نے اس دنیا اور اسکی ہر چیز کو تخلیق فرمایا۔ میرا ایمان یہ ہے کہ یہ کلام  بھی رب  کی ہی دین ہے اور وہی رب ہی اسے انسان  پہ اتارتا ہے
جب آپ قصیدہ لکھ چکے تو آپ نے قلم دوات رکھی اور سو گئے
اسی رات  آپ نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں ہیں اور فرمایا کہ
اٹھ بوصیری،،
امام بوصیری نے کہا
،، میں ہزار جانوں سے قربان لیکن کیسے اٹھوں،،
کیونکہ وہ فالج زدہ تھے اور اٹھنے سے قاصر تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت ان کے جسم پہ پھیرا اور فرمایا
،،اٹھ اور مجھے وہ سنا جو تو نے لکھا،،
امام بوصیری اٹھ بیٹھے اور  جھوم جھوم کے سنا رہے
مولا یا صلی وسلم۔۔۔ دایما ابا دا
اے اللہ۔ آپ دائمی اور ابدی سلامتی بھیجئے اپنے محبوب پہ
میری آنکھیں آپ کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور رواں دواں ہیں
مدینہ پاک سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔اندھیری رات میں بجلی چمک رہی ہے
میرے عشق کا تذکرہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب میرا راز محبت بھی نہیں چھپ سکتا اور نہ ہی میرا مرض ختم ہو گا
تیری محبت کی،   میرے آنسو اور میری بیماری گواہی دے رہے ہیں۔میں اپنے عشق کو کیسے چھپا سکتا ہوں
اے دل۔ اگر تو  حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عاشق نہیں تو مکہ کو دیکھ کے آنسو کیوں بہاتا ہے
کیا محبت میں رونے والا عاشق خیال کرتا ہے کہ بہتے آنسوؤں اور سوختہ دل کی آڑ میں محبت کا راز چھپا پاے گا
تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے کہ تو انہیں آنسو روکنے کیلئے کہتا ہے اور یہ  بہائے جا رہی ہیں
تیرے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ سنبھلنے کی بجاے مزید غمناک ہو رہا ہے
جب رات مجھے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال آیا تو میں رات بھر جاگتا رہا۔
درد محبت نے میرے چہرے پہ آنسو اور رخساروں پہ  زردی پیدا کر دی ہے
اے غریبوں کا خیال رکھنے والے
اے دل گیروں کی دلجوئی کرنے والے
اے مظلوموں کا ہاتھ پکڑنے والے
اے سچ کہنے والے
اے گناہگاروں کا پردہ رکھنے والے
اے ازل کا نور
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔آپکے منہ میں آپ کے دانت ایسے ہیں جیسے سیپ کے اندر قیمتی موتی
اے اللہ آپ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہ ابدی اور دائمی سلامتی نازل فرمائیں
اب امام بوصیری جھوم جھوم کے پڑھ رہے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محبت کو قبول فرماتے ہوئے ان کے ساتھ سن رہے ہیں
جب قصیدہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوے کہ انہوں  نے اپنی چادر(بردہ) اتار کے انہیں مرحمت فرمائی
اس کے ساتھ ہی انکی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو چادر ان کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی
وقت دیکھا تو تہجد کا وقت تھا
امام بوصیری پندرہ سال کے بعد ہشاش بشاش صحت مند اٹھے ۔ فالج کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا کہ تہجد ادا کریں
گھر سے نکلے تو ایک فقیر نے آواز لگائی
،،ہمیں بھی تو سناؤ وہ قصیدہ،،
امام  بوصیری نے تجاہل عارفانہ سے کہا
کونسا؟؟
وہی جس کے بدلے یہ بردہ بھی ملا
مجذوب نے چادر کی طرف اشارہ کیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
اس قصیدے میں 100 سے اوپر اشعار ہیں اور کسی شعر میں لفظ ،، بردہ،، استعمال نہیں ہوا
لیکن جو چادر آپ کو دی گئی اس کی مناسبت سے اس کا نام قصیدہ بردہ شریف زبان زد خاص و عام ہوا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرف قبولیت سے نوازا تو آج تک اس کا ورد جاری ہے.
نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
See more
25 July at 03:39
2 Reacts 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
محبوب کی گلی میں بھی اب جانا سنبھل کے
سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ٹیکس اداؤں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا اب قومی خزانہ یہ ھے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح و شام سخن ور
اس زلف کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
دل بھر کے دیکھ لو جتنا بھی اب چاھو
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اٹھ جاو میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو
کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا
گروپ میں کبھی آؤ تو یہ سوچ کے آنا
ہر پوسٹ پہ ہر سوچ پہ اب ٹیکس لگے گا🤪
See more
22 July at 02:14
1 React 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
21 July at 02:55
3 Reacts 10 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
‏دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص  کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔
"یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!"
سیدنا عمر ؓ  ان سے پوچھتے ہیں۔
"کیا کیا ہے اس شخص نے؟"
"یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل  کیا ہے۔"
"کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
"کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے :
"ہاں امیر المؤمنین،  مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔"
"کس طرح قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
"یا عمرؓ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے  ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔"
"پھر تو قصاص دینا  پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر  شریف خاندان  سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے  پر عمرؓ کو  روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ  قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے۔
"اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔"
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:
"کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء  میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو  ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا  گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا  زمین کے ٹکڑے  یا کسی اونٹ کے سودے  کی ضمانت کا معاملہ ہے؟  ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض  کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ ؓ  پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ  بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت  نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟  یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا  جائے؟  واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا عمرؓ  سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،
"معاف کر دو اس شخص کو۔"
"نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔
"اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟"
حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
"ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔"
"چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: "جانتے ہو اسے؟"
ابوذرؓ: "نہیں جانتا اسے"
عمرؓ: "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟"
ابوذرؓ: "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔"
عمرؓ: "ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔"
"امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔"
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے،  اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر  واپس آنے کیلئے ‏اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت  شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
"کدھر ہے وہ آدمی؟"
سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
"مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"،
ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا  ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا  مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں  اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
"اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا"
"امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو  پرندوں کے چوزوں کی طرح  صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
"ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟"
ابوذرؓ نے کہا،
"اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔"
سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
"کہ کیا کہتے ہو اب؟"
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا،
"اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ  اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
"اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔"
"اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"۔
اور
"اے شخص،  اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے کو، جس نے ترجمہ کر کے اس پیغام کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا ان کو بھی، جن کو یہ پیغام اچھا لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔
آمین یا رب العالمین۔
منقول
See more
21 July at 02:52
2 Reacts 14 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ایک شکاری نے کنڈی میں گوشت کی بوٹی لگا کر دریا میں پھینکی ایک مچھلی اسے کھانے دوڑی
وہیں ایک بڑی مچھلی نے اسے روکا کہ اسے منہ نہ لگانا اس کے اندر ایک چھپا ہوا کانٹا ھے جو تجھے نظر نہیں آرہا بوٹی کھاتے ہی وہ کانٹا تیرے حلق میں چبھ جائے گا جو  کوشش کے بعد بھی نہیں نکلے گا
تیرے تڑپنے سے باہر بیٹھے شکاری کو اس باریک ڈوری سے خبر ہو جائے گی
تو تڑپے گی
وہ خوش ہوگا
اس باریک ڈور کے زریعے تجھے باہر نکالے گا
چھری سے تیرے ٹکڑے کریگا مرچ مصالحہ  لگا کر آگ پر ابلتے تیل میں تجھے پکائے گا
10 , 10 انگلیوں والے انسان 32 , 32 دانتوں سے چبا چبا کر تجھے کھائیں گے
یہ تیرا انجام ہوگا
بڑی مچھلی سمجھانے کا حق ادا کر کے  چلی گئی
چھوٹی مچھلی نے دریا میں اپنی عقل سے ریسرچ  کی
نہ شکاری
نہ آگ
نہ کھولتا تیل
نہ مرچ مصالحہ
نہ دس دس انگلیوں اور بتیس بتیس دانتوں والے انسان
کچھ بھی نہیں نظر آ رھا
چھوٹی مچھلی کہنے لگی یہ بڑی مچھلی ان پڑھ جاہل پتھر کے زمانے کی باتیں کرنیوالی
کوئی حقیقت نہیں اسکی باتوں میں میں نے خود ریسرچ کی ھے
اسکی بتائی ہوئی کسی بات میں بھی سچائی نہیں
میرا ذاتی مشاہدہ ھے وہ ایسے ہی سنی سنائی نام نہاد غیب کی باتوں پر یقین کیئے بیٹھی ھے
اس ماڈرن سائنسی دور میں بھی پرانے فرسودہ نظریات لیئے ہوئے ھے۔
چنانچہ اس نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیادپر بوٹی کو منہ میں ڈالا
کانٹا چبھا
مچھلی تڑپی
شکاری نے ڈور کھینچ کر باہر نکالا
آگے بڑی مچھلی کے بتائے ہوئے سارے حالات سامنے آگئے
حاصل کلام
انبیاء علیھم السلام نے انسانوں کو موت کا کانٹا چبھنے کے بعد پیش آنے والے غیب کے سارے حالات و واقعات تفصیل سے بتا دیئے ہیں
بڑی مچھلی کیطرح کے دانا انسانوں نے انبیاء کی باتوں کو مان کر زندگی گزارنی شروع کر دی
چھوٹی مچھلی والے نظریات رکھنے والے انبیاء کا رستہ چھوڑ کر اپنی ظاہری ریسرچ کے رستہ پر چل پڑا
لیکن موت کا کانٹا چبھنے کے بعد سارے حالات سامنے آجائیں گے
مچھلی پانی سے نکلی واپس نہ گئی
انسان دنیا سے جائے گا واپس نہیں آئے گا
بس یہی وقت ہے اگر سمجھ گۓ تو
اللہ تعالی کا وجود کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جتنی باتیں ہمیں قرآن وحدیث سے آخرت کے بارے میں پتہ چلتی ہیں وہ کوئی مذاق نہیں ہے یا کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے
اللہ تعالی ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین ۔
See more
20 July at 14:23
2 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
پاکستان کے ساتھ ہوا کیا ہے
ﺩﻭﻟﮩﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ سہیلیوﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﭘﮭﺮﺗﯿﮟ ﮐﮧ "ﺑﮭﯿﺎ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﺳﮯ ﻣﯿﻢ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ،" ﺑﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯاب ﭘﺮ ﻣﯿﻢ ﺗﮭﯽ،
ﺍﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ نہیں ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺍﯾﺘﺎً ﭼﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭦ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ،
ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ ﻟﯿﺘﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﻢ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ.
ﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ.
ﺻﺮﻑ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ بیٹے ﺳﮯ پوچھا
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐِﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ،
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮﮔﺌﮯ!
ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺗﮭﺎ،
ﮐﭽﮫ دنوں بعد ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ،
ﻣﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﺟﺎﻧﮯ پر ﻣﯿﻢ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﭘﺮ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﺑﺎنہوﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻝ ﺟﺎتیں ﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﮩﺮ ﺛﺒﺖ ﮐﺮتیں!
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭼﮧ میگوئیاں ﮨﻮﺋﯿﮟ،
ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"
ﮔﺮﻣﯿﺎﮞ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻧﯿﮑﺮ ﭘﮩﻨﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ، ﺍﺑﺎﺟﯽ نے ﺗﻮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ھی ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ،
ﺍﻣﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﮑﺘﯽ ﺭﮨﺘﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ!
ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"۔
ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﻭ ﮐﯿﺒﺮﮮ ﮈﺍﻧﺲ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ, ﺩﻝ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ،
ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"
ﮔﻮﺭﯼ ﻋﯿﺪ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﺮﺳﻤﺲ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ اہتماﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺎﺗﯽ ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ، ﺑﭽﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺧﺘﻨﮯ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ، ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮐﮭﺴﯿﺎﻧﯽ ﺳﯽ ہنسی ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﻟﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ\'\'
ﮈﺍﻧﺲ، ﻣﯿﻮﺯﮎ، ﻓﻠﻤﯿﮟ، ﮐﺎﮎﭨﯿﻞ ﭘﺎﺭﭨﯿﺰ، ﮐﺮﺳﻤﺲ، ﺳﺮﻋﺎﻡ ﺑﻮﺱﻭﮐﻨﺎﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﮯ،
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ، ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ۔
ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﯿﮟ ﭘﮩﻦ ﭘﮩﻦ کر ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ،
ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯿﮟ، ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻤﻌﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ لئے ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"
ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ کے ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ، ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺟﮕﮧ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻡ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ کے لیئے ﻧﮑﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺟﯿﻨﺰ ﺷﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺳﺎ ﮈﺍﻝ ﻟﯿﺘﯽ۔ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮐﮧ
"ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"
عمران خان کو  لانچ کیا گیا تو ہم بھی بڑے خوش ہوئے ہم نے ایک دوسرے کو بتایا کہ ایسا بندہ آیا ہے جو غریب کی بات کرتا ہے جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے
مدینہ کی بات کرتے کرتے ہمارا پہلا دین بھی تباہ کر دیا۔ جب بھی  کوئی گستاخی عمران خان سرزد کرتا ہے تو مولانا طارق جمیل صاحب بتاتے کہ ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے
عمران خان  کہتا ہے قبر میں میرے بارے سوال ہو گا۔ عوام بڑے  حیران ہوئے عوام ابھی سوال ہی کرنے والے تھے کہ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے ہم نے کہا ٹھیک ہے یار مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہے
پھر عمران خان کہتا ہے الله مجھے تیار کر رہا ہے، جیسے اپنے نبیوں کو تیار کیا ہے۔
عوام پھر حیران ہوئے اور ابھی سوال ہی کرنے لگے تھے کہ ثروت اعجاز نے کہا ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے
عمران خان کہتا ہے جس نے میری سپورٹ نہیں کی اس نے شرک کیا۔
اس بار تو عوام حیران و پریشان ہوگئے اور کہا کہ نعوذباللہ
خان صاحب کیا کہہ رہے ہیں  عمران خان کے جواب دینے سے پہلے ہی مولانا نورالحق صاحب کہتے ہیں ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
‏‎اللّٰہ نے مجھے غلطی سے انسان بنا دیا۔ لوگوں نے کہا یہ کیا کہہ رہے ہیں تو جلیل احمد شرقپوری نے کہا ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
عمران خان نے کہا صحابہ ڈر گئے تھے۔ صحابہ پر بہتان لگایا۔
صحابہ نے لوٹ مار شروع کر دی۔
صحابہ کی گستاخی کی ۔
تاریخ میں حضرت عیسیٰ کا کوئی ذکر نہیں۔
پیغمبر کی گستاخی کی۔
عمرہ کرنے سے بہتر ہے میرا ساتھ دو۔
الله کے حکم کو رد کرنے کی گستاخی۔
اپنی ذات کو الله کے حکم اور اسلام کے اہم رکن سے بھی اوپر سمجھنے کا گناہ کیا۔
قرآن میں اللّٰہ نے میرے جیسے کیلئے بتایا ہے
"کہ یہ حق پر ہے اسکا ساتھ دو"  الله کی کتاب کا غلط حوالہ دیا.
اور جب ہم نے سوال کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ایک ہی جواب ملا کہ مدینہ کی ریاست کی تو بات کرتا ہے
‏ مسجد نبوی   واقعہ پیغمبروں کی شان میں گستاخی۔
صحابہ کی شان میں گستاخی۔
عمران خان کے مخالفین کی حمایت کرنا، الله کے حکم کی نافرمانی قرار دینا اور شرک قرار دینا۔
ہر گستاخی پر، ہر غلط بیانی پر عوام نے علما کی طرف دیکھا
تو مولانا طارق جمیل نے رو رو کہ یہ ہی کہا ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے
عمران خان ﺑﮭﯽ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ نے کلمہ پڑھا ہوا ہے۔
جو بےادبی  کرتا ہے۔ گستاخی کرتا ہے۔
جان بوجھ کر دین میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن  ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
ﺍﺱ ﻧﮯ رسم ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮﮌﮮ،
ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﻮﮌﮮ،
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁیا۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻗﻮﻡ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ گوری کی طرح ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے
ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ، آزادی کی جد وجہد ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ  ﮨﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ.
بہن بیٹیوں کو دھرنوں کی زینت بنایا۔
ﻟﻮﮒ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ﮨﮯ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺷﺮﮎ ﻭ ﮐﻔﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ،
ﮨﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﺎ،
ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ
ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ مدینہ کی ریاست کی بات تو کرتا ہے
ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ  ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ کہ دین کا استعمال اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، اگر وہ بولا تو اسے غداری سے منسلک کر دیا۔
قوم کی نوجوان نسل کو بدتمیز بدتہذیب بدلحاظ بےغیرت بنا دیا گیا ہے۔
جو ماں باپ کا حکم ماننے کی بجائے عمران خان کے جلسوں میں جانا پسند کرتے ہیں
جو اسلامی درسگاہوں تبلیغی جماعت اور مسجدوں میں جانے کی بجائے دھرنوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔
ھماری بے راہ روی مدینہ کی ریاست ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ بہتﮐﭽﮫ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ.
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ لئے ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ... اپنی زندگی میں اسلام لانے کی کوشش کیجئے ورنہ گوری کی طرح ھم نے بھی بس *کلمہ ہی پڑھا ہے
منقول
See more
18 July at 05:10
2 Reacts 9 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
بسم الله الرحمن الرحيم
*السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُالله
سدا بَخَیْر
یا اللّٰه جس کی بگڑی بنائے نہ بنے اس کی معاملات کو تیرے سوا کون بنائے، الٰہی دین و دنیا کے معمولات اور معاملات میں ہماری دستگیری فرما، ہمارا وہ سب جو ہم نے اپنے ہاتھوں بگاڑ رکھا ہے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سنوار دے۔
آمیــن
See more
18 July at 02:39
2 Reacts 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
بسم الله الرحمن الرحيم
*السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُالله
سدا بَخَیْر
یا اللّٰه جس کی بگڑی بنائے نہ بنے اس کی معاملات کو تیرے سوا کون بنائے، الٰہی دین و دنیا کے معمولات اور معاملات میں ہماری دستگیری فرما، ہمارا وہ سب جو ہم نے اپنے ہاتھوں بگاڑ رکھا ہے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سنوار دے۔
آمیــن
See more
18 July at 02:39
2 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
بے چارہ سوالی
نام تو طیبہ تھا لیکن عرب اسے یثرب کہتے تھے، عربی میں یثرب تکلیف اور بیماری کے مقام کو کہا جاتا ہے، یہ بات تھی بھی درست، پورے عرب میں سب سے زیادہ بارشیں اسی علاقے میں ہوتی تھیں لہٰذا وادی میں زہریلے مادے پیدا ہو گئے تھے، جو بھی طیبہ میں قدم رکھتا بیمار ہو جاتا لیکن پھر وہاں میرے حضور تشریف لائے، محققین کہتے ہیں یہ اگست 622ء کا پہلا ہفتہ تھا لیکن کچھ کا خیال ہے یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔
آپ قبا میں چودہ دن قیام کے بعد یثرب میں داخل ہوئے تو بنو نجار کی بچیوں نے دف بچا کر استقبال کیا، اس واقعے کے ایک ہزار تین سو اسی برس ایک ماہ اور 23 دن بعد ہم ٹھیک اس جگہ کھڑے تھے، سامنے ایک قدیم قلعے کے آثار تھے، شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی نے قلعے کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’وہ بچیاں وہاں کھڑی ہو کر دف بجا رہی تھیں‘‘ قریب ہی ایک مسجد تھی، بتایا گیا ’’حضور نے یہاں ہجرت کی پہلی نماز جمعہ ادا فرمائی تھی‘‘ قلعے اور مسجد کے درمیان ایک احاطہ تھا اور احاطہ میں ایک چبوترے کے آثار تھے، وہاں رسول اللہ نے ایک صحابیؓ کی درخواست پر نمازادا کی تھی، پلکوں پر آنسو آبشار کی طرح گرنے لگے۔
حضور یہاں سے آگے بڑھے تو یثرب مدینہ بن گیا اور طیبہ منورہ اور پھر یہ شہر دنیا میں سکون، ایمان، شفاء اور قبولیت کا مرکز ہو گیا، یہ شہر کیا ہے؟ آپ اس کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلگتے کوئلوں پر چلتے چلتے ایسی وادی میں آ گئے جہاں گلاب کی نرم پتیاں بچھی ہیں اور ہوا عنبر اور مشک کے بطن سے جنم لے رہی ہے، دنیا بھر کے درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں ماسوائے مدینہ کے اشجار کہ یہ بے ادبی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی کا ایک شعر پڑھا، واہ کیا نازک احساس اور ہزاروں لاکھوں پھولوں کی گندھی فکر تھی، شاعر نے کہا ’’ اگر تمہیں مدینے میں سکون نہیں ملتا تو پھر کہاں ملے گا، اگر تمہاری دعائیں مدینے میں قبول نہیں ہوتیں تو پھر کہاں ہونگی!!‘‘
انصار کو بڑی شدت سے حضور کا انتظار تھا، وہ روز صبح گھروں سے نکلتے اور شہر سے باہر آ کر آپ کا انتظار کرنے لگتے، سورج ڈوبتا تو ساتھ ہی آس بھی ڈوب جاتی لیکن صبح سورج کے ساتھ شوق دید پھر آنکھ کھول لیتا، اس دن بے انتہا گرمی تھی، لوگ شام سے پہلے ہی مایوس ہو گئے لیکن جونہی حضور کی اونٹنی نے قبا میں قدم رکھا، ایک یہودی نے آپ کو دیکھا اور ’’ اے لوگو! تمہارا نجات دہندہ آ گیا‘‘ کا نعرہ لگا کر گلیوں میں دوڑنے لگا، امیدیں ایک بار پھر طلوع ہو گئیں۔ چودہ دن بعد آپ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو سیکڑوں جاں نثار دائیں بائیں چل رہے تھے۔ یہ انصار تھے وہ انصار جنہوں نے آپ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں۔
آپ کے ساتھیوں کو اپنے گھروں، کھیتوں، باغوں اور دکانوں میں حصہ دیا اور بدلے میں حضور کو پایا۔ تاریخ کو حنین کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب میرے حضورنے نو مسلم مکیوں کومال غنیمت سے زیادہ حصہ دیا، چند انصار نے یہ تقسیم ناپسند کی‘ آپ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا ’’کیا تم کو یہ پسند نہیں لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد کو لے کراپنے گھر آئو‘‘ انصار بے اختیار ہو کر چیخے ’’ہمیں صرف رسول اللہ درکار ہیں‘‘ اور پھر وہاں گریہ کا سیلاب آ گیا، داڑھیوں سے آنسو ٹپکنے لگے، قریش اونٹ اور بکریاں لے گئے اور انصار کو حضور مل گئے۔ یہ اعزاز اب دنیا کی کوئی طاقت اہل مدینہ سے نہیں چھین سکتی۔
انصار مہمان نواز تھے، اللہ کے نبی سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے۔ انصار نے حضور کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضور کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ رمضان میں پورا مدینہ اشیاء خورونوش لے کر مسجد نبوی حاضر ہو جاتا ہے ‘دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے ۔
وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں۔ مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں، میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا ’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘ میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا ’’ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔‘‘
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے۔
باب جبرائیل، آپ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے، افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھ پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا، حضرت بلالؓ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ فرماتے ’’ عائشہؓ باہر دیکھو باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں ‘‘ آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں’’ یا رسول اللہ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘ آپ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے، میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضور آرام فرما رہے ہیں۔ میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا، آج بھی رمضان ہے۔
ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضور حضرت عائشہؓ سے پوچھیں ’’ ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘ اور ام المومنین عرض کریں گی ’’ یا رسول اللہ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘ یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ اور پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو۔
جاوید چوہدری
See more
17 July at 11:41
2 Reacts 7 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
ہماری تاریخ میں بہت بڑا خوبصورت نام عبداﷲ بن زید رحمۃ ﷲ علیہ کا ہے۔ آپ نے ساری زندگی نکاح نہیں کیا، جوانی گزر گئی بڑھاپا آیا ایک دن بیٹھے حدیث مبارکہ پڑھ رہے تھے تو اس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ:''جنت میں کوئی اکیلا نہیں ہو گا جو نکاح کی عمر میں نہیں پہنچا یا پہنچا بھی تو کسی وجہ سے نہیں ہوا اور وہ مسلمان ہی مرا تو ﷲ مسلمان مردوں اور عورتوں کا جنت میں آپس میں نکاح کر دے گا''۔
جب یہ حدیث پاک پڑھی تو دل میں خیال آیا کہ یہاں تو نکاح نہیں کیا تو جنت میں ہونا ہی ہونا ہے تو جنت میں میری بیوی کون ہو گی دعا کی کہ یا ﷲ مجھے دکِھا تو سہی جنت میں میری بیوی کون ہو گی؟
پہلی رات دعا قبول نہیں ہوئی دوسری رات بھی دعا قبول نہیں ہوئی تیسری رات دعا قبول ہو گئی، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کالے رنگ کی عورت ہے حضرت بلال حبشی کے دیس کی رہنے والی حبشہ کے دیس کی اور وہ کیا کہتی ہے کہ:''میں میمونہ ولید ہوں اور میں بصریٰ میں رہتی ہوں''۔پتہ مل گیا آنکھ کھلی حضرت کی تہجد کا وقت تھا نوافل پڑھے نماز فجر باجماعت ادا کی اور سواری لے کر حضرت عبداﷲ بن زید بصریٰ گئے وہاں لوگوں نے بڑا استقبال کیا حضرت کا نام ہی بہت بڑا تھا بیٹھا کر پوچھا حضرت بتائے بغیر کیسے آنا ہوا خیر تو ہے آپ نے پوچھا یار یہ تو بتاؤ یہاں کوئی میمونہ ولید رہتی ہے لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا حضرت آپ اتنے دٗور سے چل کر میمونہ ولید سے ملنے آئے ہیں آپ نے فرمایا کیوں اُس سے کوئی نہیں مل سکتا نہیں حضور وہ تو دیوانی ہے لوگ اُسے پتھر مارتے ہیں، حضور نے پوچھا کیوں مارتے ہیں حضور کام ہی ایسے کرتی ہے کوئی رو رہا ہو تو اسے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے اور کوئی ہنس رہا ہو تو رونا شروع کر دیتی ہے اور وہ اجرت پر پیسے لیکر لوگوں کی بکریاں چرہاتی ہے آج بھی وہ ہماری بکریاں لیکر جنگل میں گئی ہے آپ آرام فرمائیں عصر کے بعد آ جائے گی آپ مل لیجیے گا۔
حصْرت نے فرمایا عصر کس نے دیکھی کہا وہ کس سمت گئی ہے لوگوں نے کہا حضور جنگل نہ جائیں بہت خوفناک جنگل ہے آپ نے فرمایا بتاؤ کس طرف گئی ہے لوگوں نے بتایا آپ فرماتے ہیں کہ میں نکل گیا آپ فرماتے ہیں کہ جب میں جنگل گیا واقع ہی خوفناک جنگل تھا جنگلی جانوروں کی بھرمار تھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیز کھڑی ہے آپ فرماتے ہیں کہ قربان جاؤں اس عورت کی مردانگی پر وہ اس جنگل میں کس طرح بکریاں چرا رہی ہے شیروں نے اس کی بکریوں کو ابھی تک کھایا نہیں اتنے درندے ہیں سارے مل کر حملہ کر دیں تو کیا کرے یہ اکیلی عورت کس کس کو روکے گی؟ خیر آپ فرماتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں لوگوں نے مجھے بتائی تھی میں وہاں پہنچ گیا جب میں وہاں پہنچا تو منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا دو حیران کر دینے والے منظر تھے۔
پہلا یہ کہ میمونہ ولید ؒ بکریاں نہیں چرا رہی تھی بلکہ اُس جنگل میں جائے نماز بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی پر بکریاں چرانا تو بہانہ تھا یہ تو بہانہ تھا کنارہ کشی کا، لوگ یہی سمجھتے تھے میمونہ سارا دن بکریاں چراتی ہے لیکن میمونہ بکریاں نہیں چرا رہی تھی۔
دوسرا کیا دیکھا کہ میمونہ تو نماز پڑھ رہی ہیں پھر بکریاں کون چرا رہا ہے بکریاں تو ایک جگہ نہیں رکتیں کہیں اِدھر جاتی ہیں کہیں اُدھر آپ فرماتے ہیں کہ میمونہ نماز پڑھ رہی تھی اور شیر بکریاں چرا رہے ہیں بکریاں چر رہی ہیں شیر انکے اردگرد گھوم رہے ہیں اگر کوئی بکری بھاگتی ہے اس کی فطرت ہے شرارت کرنا تو شیر اُسے پکڑ کر واپس لے آتا ہے لیکن کہتا کچھ نہیں۔
آپ فرماتے ہیں میں حیران و پریشاں کھڑا تھا کہ یہ کیسے ہو گیا ہے یہ فطرت کیسے بدل گئی لوگ کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی یہ شیروں اور بکریوں میں یاری کیسے ہو گئی آپ فرماتے ہیں میں دنگ حیران و پریشان کھڑا ہوں مجھے نہیں پتہ کہ کب میمونہ ولید نے نماز ختم کر دی اور مجھے مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ:''اے عبدﷲ ملنے کا وعدہ تو جنت میں تھا آپ یہاں آ گئے''۔
آپ فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا اس سے پہلے تو ملاقات بھی نہیں ہوئی تو حضرت میمونہ ولید  کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا
تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میمونہ ولیدؒ سے سوال کیا اِس سے پہلے ہم ملے نہیں ملاقات نہیں ہوئی ہماری تو میرا نام کیسے پتہ چلا آپ کو تو جواب کیا ملا حضرت میمونہ ولیدؒ فرماتی ہیں عبدﷲ جس ﷲ نے رات کو تجھے میرے بارے میں بتایا ہے اُسی ﷲ نے مجھے آپکے بارے میں بتایا ہے
آپ فرماتے ہیں کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھا کہ یہ فطرت کیسے بدلی میں نے حضرت میمونہ ولید ؒ سے پوچھا آپ یہ تو بتاؤ یہ شیروں نے بکریوں کے ساتھ یاری کیسے کر لی یہ تو غذا ہے انکی اگر شیر بکریوں کے ساتھ یاری لگائے گا تو کھائے گا کیا یہ کیسے معاملہ ہو گیا تو حضرت میمونہ ولید ؒ فرماتی ہیں جب سے میں نے رب سے صلح کر لی ہے اُس دن سے اِن شیروں نے بھی میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔
See more
17 July at 00:06
3 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
گلاں سچیاں
16 July at 11:02
2 Reacts 6 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
عمران خان نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے؟
آج میں تاریخ کی اک مستند کتاب پڑھ رہا تھا کہ حیرت کا اک ایسا باب کُھلا کہ بہت سارے چھپے رستم سامنے آگئے
کتاب پڑھتے پڑھتے یہ بات سامنے آئی کہ جب بابائے قوم کی میت قبرستان لے جانے کے لئے اٹھائی گٸی تو پوری انکی کابینہ کے وزراء  اور فوجی قیادت ہمراہ تھے - - -  لیکن جب قائد اعظم کا نماز جنازہ پڑھایا جانے لگا تو پوری کابینہ اور فوجی قیادت تو پہلی صف میں کھڑی ملی مگر ملک کا وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں اور دو جرنیل خاموشی سے صف سے نکلے اور دائیں جانب  پہ جاکر کھڑے ہوگئے اور نماز جنازہ میں شرکت نہ کی جب نماز جنازہ مکمل ہوگئی تو وہ تینوں ایک بار پھر سب میں گھل مل گئے - - -
صحافیوں نے سر ظفر اللہ خاں سے پوچھا :-
" سر آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی" - -
ظفراللہ خاں نے جواب دیا :-
" ہم  "احمدی مسلمان " احمدیوں ( قادیانیوں) کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے" - - -
اس جواب پہ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا میں نے اپنے اک دوست سے رابطہ کیا جسکے چچا قادیانی تھے تو انھوں نے مثبت مین سر ہلایا کہ واقعی اس کے چچا ، چچا کے بیٹے معاشرتی طور پہ ہر فوتیدگی پہ آتے ہیں اظہار ہمدردی کرتے ہیں ، سب کچھ کرتے ہیں مگر کسی کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے ، بہت قریبی رشتہ ہو جیسے میرے دوست کے دادا اور تایا ابو وفات پائے تو جنازہ گاہ تک ساتھ گئے مگر نماز جنازہ میں شرکت نہ کی دائیں جانب کھڑے ہو گئے نماز جنازہ کے بعد پھر آملے - -
تب میرے دماغ میں جھماکے ہونے لگے - - - قارٸین آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خاٸن اقتدار میں آئے تو ان کے سب سے قریبی ساتھی اور جگری دوست " انعام الحق" کا کراچی میں انتقال ہوگیا تو سارے سرکاری انتظامات مکمل ہونے کے باوجود عمران خاٸن انکا نماز جنازہ پڑھنے نہیں گئے تھے
پھر قارٸین کو یاد ہوگا کہ محسن پاکستان ، ایٹمی پاکستان کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اسلام آباد میں وفات ہوئی تو عمران خاٸین نے اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے بھی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی - -
پھر قارٸین اکرام کو یاد ہوگا کہ ملک کی عظیم بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت ، عظیم فلاحی تنظیم " ایدھی" کے بانی اور روح رواں " مولانا عبدالستار ایدھی" کی وفات بھی عمران خاٸین کے دور حکومت میں ہی ہوئی تھی ساری دنیا نے حتیٰ کہ آرمی چیف تک نے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی مگر عمران خاٸین نے شرکت نہ کی تھی
عمران  کے فیملی کزن اور بہنوٸی حفیظ اللہ  نیازی نے کچھ دن پہلے اک انٹرویو میں بتایا کہ عمران نے تو اپنے والد کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی تھی البتہ اپنے نانا  کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی - - - اور قارٸین کو یہ علم تو ہو گا کہ عمران کے نانا کا شمار مرزا قادیانی کے 5 نمبر پہ مرزا کے  خاص صحابی کے طور پہ ہوتا تھا - -
تازہ بتازہ معروف صحافی ، عمران  کا راٸیٹ ہینڈ ساتھی ارشد شریف کینیا مین قتل ہوگیا جس کے قتل پہ عمران نے وہ شور مچایا ،. وہ شور مچایا کہ عمرانی فالورز کے نزدیک وہ صحافی پیر کا درجہ اختیار کر گیا ، اس کے قتل کو عمران نے پی ٹی آئی کا قتل قرار دیا ، ارشد شریف کو اپنا بھاٸی قرار دیا اس کے گھر جاکر اس کے گھر کے اک اک فرد سے تعزیت کی مگر جب  ارشد شریف کا جسد خاکی پاکستان آیا تو شہر میں موجود ہوتے ہوئے بھی نماز جنازہ مین شرکت نہ کی -
حفیظ اللہ نیازی کا یہ کہنا بھی اب سچ نظر آتا ہے کہ چیلنج ہے کہ عمران کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ، وزیر اعظم بننے کے دوران اور وزیر اعظم کے عہدے سے اترنے کے بعد آج تک کوٸی ایک خاندان میں، سیاسی قائدین ، کسی گہرے تعلق والے کی فوتیدگی پہ اس کے نماز جنازہ کے بارے بتا دیا جائے کہ عمران نے شرکت کی ہو جو چاہو انعام میں دونگا - - - تازہ بتازہ ظلے شاہ پی ٹی آئی کے کارکن کی وفات پہ بھی عمران خاٸین نماز جنازہ کو نہین گئے - - -
اس کے بعد ذرا سا عمران خاٸین کو فوکس کیا تو عمران کسی بھی موقع پہ اللہ کے نبی (ص) کا نام درست طور پہ کبھی نہیں لیتا آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے تین بار ان کو لفط  " خاتم  النبیین" دھرا کر کہا گیا انھوں نے اس کو درست نہ پڑھا تو بالاخر اسے چھوڑکے حلف مکمل کیا گیا اور یہ بات بھی کنفرم کی ہے میں نے کہ قادیانی لفظ  " خاتم النبیین" کبھی اداء نہیں کرتے مجبوری بن جائے تو عمران خاٸین کی طرح زبان گھما کر کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں - - -
پھر آپ کو یاد ہوگا کہ اک بار عمران  نے تقریر کرتے ہوئے دنیا میں آئے انبیاء اکرام کی تعدار  140000  کہہ دی ، ان کو ٹوک کے تصحیح کی گئی مگر وہ انبیاء کی تعداد 140000 پہ ہی ڈٹے رہے جب اس بارے ہم نے تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ قادیانیوں کا عقیدہ ہیے کہ  انبیاء اکرام کی تعداد  140000 ہے - - -
دوستو سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ذرا سوچو کہ کیا یہ اتفاقات محض اتفاقیہ ہیں یا یہ ہم کو اس سمت اشارہ کر رہے ہین جب 1994 میں حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد نے قوم کو متنبہ کیا تھا کہ یہودی اک کھلاڑی کو تیار کر  رہے ہیں اور یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہیے کہ قادیانیوں کا سب سے بڑا سرپرست اسرائیل ہے - - -
ذرا نہیں پورا سوچئے
کیا حقائق ہمیں مطمئن نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟🤔
اللّه پاک مسلمانو کو سمجھ عطاء فرماے آمین
کاپی
See more
16 July at 10:49
2 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share
Mussarat Hussain @Mussarat
عمران خان نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے؟
آج میں تاریخ کی اک مستند کتاب پڑھ رہا تھا کہ حیرت کا اک ایسا باب کُھلا کہ بہت سارے چھپے رستم سامنے آگئے
کتاب پڑھتے پڑھتے یہ بات سامنے آئی کہ جب بابائے قوم کی میت قبرستان لے جانے کے لئے اٹھائی گٸی تو پوری انکی کابینہ کے وزراء  اور فوجی قیادت ہمراہ تھے - - -  لیکن جب قائد اعظم کا نماز جنازہ پڑھایا جانے لگا تو پوری کابینہ اور فوجی قیادت تو پہلی صف میں کھڑی ملی مگر ملک کا وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں اور دو جرنیل خاموشی سے صف سے نکلے اور دائیں جانب  پہ جاکر کھڑے ہوگئے اور نماز جنازہ میں شرکت نہ کی جب نماز جنازہ مکمل ہوگئی تو وہ تینوں ایک بار پھر سب میں گھل مل گئے - - -
صحافیوں نے سر ظفر اللہ خاں سے پوچھا :-
" سر آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی" - -
ظفراللہ خاں نے جواب دیا :-
" ہم  "احمدی مسلمان " احمدیوں ( قادیانیوں) کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے" - - -
اس جواب پہ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا میں نے اپنے اک دوست سے رابطہ کیا جسکے چچا قادیانی تھے تو انھوں نے مثبت مین سر ہلایا کہ واقعی اس کے چچا ، چچا کے بیٹے معاشرتی طور پہ ہر فوتیدگی پہ آتے ہیں اظہار ہمدردی کرتے ہیں ، سب کچھ کرتے ہیں مگر کسی کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے ، بہت قریبی رشتہ ہو جیسے میرے دوست کے دادا اور تایا ابو وفات پائے تو جنازہ گاہ تک ساتھ گئے مگر نماز جنازہ میں شرکت نہ کی دائیں جانب کھڑے ہو گئے نماز جنازہ کے بعد پھر آملے - -
تب میرے دماغ میں جھماکے ہونے لگے - - - قارٸین آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خاٸن اقتدار میں آئے تو ان کے سب سے قریبی ساتھی اور جگری دوست " انعام الحق" کا کراچی میں انتقال ہوگیا تو سارے سرکاری انتظامات مکمل ہونے کے باوجود عمران خاٸن انکا نماز جنازہ پڑھنے نہیں گئے تھے
پھر قارٸین کو یاد ہوگا کہ محسن پاکستان ، ایٹمی پاکستان کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اسلام آباد میں وفات ہوئی تو عمران خاٸین نے اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے بھی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی - -
پھر قارٸین اکرام کو یاد ہوگا کہ ملک کی عظیم بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت ، عظیم فلاحی تنظیم " ایدھی" کے بانی اور روح رواں " مولانا عبدالستار ایدھی" کی وفات بھی عمران خاٸین کے دور حکومت میں ہی ہوئی تھی ساری دنیا نے حتیٰ کہ آرمی چیف تک نے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی مگر عمران خاٸین نے شرکت نہ کی تھی
عمران  کے فیملی کزن اور بہنوٸی حفیظ اللہ  نیازی نے کچھ دن پہلے اک انٹرویو میں بتایا کہ عمران نے تو اپنے والد کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی تھی البتہ اپنے نانا  کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی - - - اور قارٸین کو یہ علم تو ہو گا کہ عمران کے نانا کا شمار مرزا قادیانی کے 5 نمبر پہ مرزا کے  خاص صحابی کے طور پہ ہوتا تھا - -
تازہ بتازہ معروف صحافی ، عمران  کا راٸیٹ ہینڈ ساتھی ارشد شریف کینیا مین قتل ہوگیا جس کے قتل پہ عمران نے وہ شور مچایا ،. وہ شور مچایا کہ عمرانی فالورز کے نزدیک وہ صحافی پیر کا درجہ اختیار کر گیا ، اس کے قتل کو عمران نے پی ٹی آئی کا قتل قرار دیا ، ارشد شریف کو اپنا بھاٸی قرار دیا اس کے گھر جاکر اس کے گھر کے اک اک فرد سے تعزیت کی مگر جب  ارشد شریف کا جسد خاکی پاکستان آیا تو شہر میں موجود ہوتے ہوئے بھی نماز جنازہ مین شرکت نہ کی -
حفیظ اللہ نیازی کا یہ کہنا بھی اب سچ نظر آتا ہے کہ چیلنج ہے کہ عمران کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ، وزیر اعظم بننے کے دوران اور وزیر اعظم کے عہدے سے اترنے کے بعد آج تک کوٸی ایک خاندان میں، سیاسی قائدین ، کسی گہرے تعلق والے کی فوتیدگی پہ اس کے نماز جنازہ کے بارے بتا دیا جائے کہ عمران نے شرکت کی ہو جو چاہو انعام میں دونگا - - - تازہ بتازہ ظلے شاہ پی ٹی آئی کے کارکن کی وفات پہ بھی عمران خاٸین نماز جنازہ کو نہین گئے - - -
اس کے بعد ذرا سا عمران خاٸین کو فوکس کیا تو عمران کسی بھی موقع پہ اللہ کے نبی (ص) کا نام درست طور پہ کبھی نہیں لیتا آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے تین بار ان کو لفط  " خاتم  النبیین" دھرا کر کہا گیا انھوں نے اس کو درست نہ پڑھا تو بالاخر اسے چھوڑکے حلف مکمل کیا گیا اور یہ بات بھی کنفرم کی ہے میں نے کہ قادیانی لفظ  " خاتم النبیین" کبھی اداء نہیں کرتے مجبوری بن جائے تو عمران خاٸین کی طرح زبان گھما کر کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں - - -
پھر آپ کو یاد ہوگا کہ اک بار عمران  نے تقریر کرتے ہوئے دنیا میں آئے انبیاء اکرام کی تعدار  140000  کہہ دی ، ان کو ٹوک کے تصحیح کی گئی مگر وہ انبیاء کی تعداد 140000 پہ ہی ڈٹے رہے جب اس بارے ہم نے تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ قادیانیوں کا عقیدہ ہیے کہ  انبیاء اکرام کی تعداد  140000 ہے - - -
دوستو سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ذرا سوچو کہ کیا یہ اتفاقات محض اتفاقیہ ہیں یا یہ ہم کو اس سمت اشارہ کر رہے ہین جب 1994 میں حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد نے قوم کو متنبہ کیا تھا کہ یہودی اک کھلاڑی کو تیار کر  رہے ہیں اور یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہیے کہ قادیانیوں کا سب سے بڑا سرپرست اسرائیل ہے - - -
ذرا نہیں پورا سوچئے
کیا حقائق ہمیں مطمئن نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟🤔
اللّه پاک مسلمانو کو سمجھ عطاء فرماے آمین
کاپی
See more
16 July at 10:02
3 Reacts 5 Views
Like
Comment
Share