@gulfam24 December 2024 at 14:29
قدرت اللہ شہاب  لکھتے ہیں کہ

’’ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا، وہاں ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی،
میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں چلا گیا تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے جا طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب و غریب داستانوں سے بھرا ہوا تھا، کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی لیکن انہوں نے ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت و احترام کا تھا،
باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔
مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور اکرم ﷺجب اپنے صحابہ کرامؓ کی کوئی درخواست یا فرمائش پوری نہ فرماتے تھے تو صحابہ کرامؓ بی بی فاطمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی منّت کرتے  کہ وہ ان کی درخواست حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروا لائیں۔ حضور نبی کریم ﷺکے دل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضورﷺ خوش دلی سے اسے منظور فرما لیتے تھے۔
اس کہانی کو قبول کرنے کیلئے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا، کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہؓ کی روحِ مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیت سے پڑھے، پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی
’’ یااللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسولؐ کے دل میں اپنی بیٹی خاتونِ جنت کیلئے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جذبہ موجزن ہو گا، اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہؓ کی روح طیبہ کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی کے حضور پیش کر کے منظور کروا لیں۔
درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں، سیدھے سادھے مروجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا، اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمائی جائے۔
‘‘اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا۔ پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا،
وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابند ِ صوم و صلوٰۃ تھیں،انہوں نے لکھا
’’اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہؓ بنت رسول ﷺکو خواب میں دیکھا، انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتا دو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامیؐ کی خدمت میں پیش کر دی تھی۔انہوں نے از راہِ نوازش اسے قبول فرما لیا ہے۔
‘‘ یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش و حواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہو گئی، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میرا ذکر ہوا، میرے روئیں روئیں پر ایک تیز وتند نشے کی طرح چھا جاتا تھا۔ کیسا عظیم باپ، کیسی عظیم بیٹی!
دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسم صورت بنا بیٹھا رہا۔
ع مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے‘‘
صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وازواجہ وبارک وسلم کثیراً کثیرا
(قدرت الله شہاب صاحب کی آپبیتی  ” شہاب نامہ “سے ایک اقتباس)
Be the first to react.1 view
Share
Share
Be the first to write comment